Maktaba Wahhabi

137 - 306
سے باہر ہوتا ہے اور اس کی بیوی اس کے گھر کی مکمل حفاظت کرتی ہے،بچوں کی نگہداشت کرتی ہے،اپنی عصمت کا خیال رکھتی ہے اور اپنے خاوند کے مہمانوں اور عزیزوں کی خدمت کرتی ہے،تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجروثواب ہے۔اللہ تعالیٰ میدانِ جہاد میں چلنے والے تیر کےبدلے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرتا ہے: ٭ اس کو بنانے والا۔ ٭ پکڑانے والا۔ ٭ چلانے والا۔ بیوی کو سمجھنا چاہیے کہ دین کا کام مل کرہوتا ہے۔یہاں ہم یہ بات مناسب سمجھتے ہیں کہ دین کا کام کرنے والے مرد حضرات کی بیویوں کو حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے۔جب ان کی شادی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی اس وقت ان کے مالی حالات انتہائی مخدوش تھے۔یہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے افضل شخص یارغار،خلیفہ اول امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔خاوند کے مالی حالات مخدوش میں فرماتی ہیں: ’’زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ایک گھوڑے کے سوا کوئی چیز نہ تھی،میں ہی ان کا گھوڑاچراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول مرمت کرتی اور آٹا گوندھتی، میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی، کچھ انصاری بچیاں میرے پاس آکر روٹی پکاجایا کرتی تھیں۔ یہ صاف دل اور باوفا عورتیں تھیں۔زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، کہتی ہیں میں وہیں کھجور کی گٹھلیاں سر پر رکھ کر لاتی تھی اور وہ زمین میرے گھر سے تقریباً دو میل دور تھی۔ ایک دن میں گٹھلیاں اپنے سر پر رکھ کر لا رہی تھی کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصار کے کئی لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور اپنا اونٹ بٹھانے کے لیے ’’اِخ اِخ ‘‘کی آواز نکالی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیں لیکن مجھے مردوں کے
Flag Counter