Maktaba Wahhabi

208 - 306
ہوئی وہ ذرا کھلی طبیعت کا مالک ہے، وہ سب کے سامنے اپنی بیوی کو مذاق وغیرہ کر لیتا ہے اور اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں رکھ رکھاؤ کا خاص خیال نہیں کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہو اتھا کہ میرے دادا جان جو ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے، تشریف لائے۔ وہ بڑے ہی افسردہ تھے۔ میں نے عرض کی کہ دادا جان خیرت تو ہے، آپ بڑے پریشان دکھائی دیتے ہیں؟ دادا جان فرمانے لگے کہ بیٹا قیامت بالکل قریب ہے۔ میں نے عرض کی کہ دادا جان کیا بات ہے میں کچھ سمجھ نہیں سکا۔ وہ کہنے لگے۔ اب تو حد ہو گئی ہے، لوگوں میں شرم حیاء کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ میں نے کہا کہ میں کچھ نہیں سمجھ سکا، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا، دیکھو بیٹا تمھاری شادی کو پانچ سال ہو گئے، آج تک میں نے تجھے تیری بیوی کے ساتھ اس طرح بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح یہ تمھارا چھوٹا بھائی بیٹھتا ہے، اور ساتھ ہی گھر کے صحن کی طرف اشارہ کردیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی چار پائی پر بیٹھ کر باتیں وغیرہ کر رہا ہے۔ میں دادا جان کی سوچ پر حیران وپریشان ہو گیا اور ان سے فقط اتنا عرض کر سکا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اس بے وقوف کو سمجھاؤں گا کہ آئندہ ایسی غلطی نہ کرے۔ راقم الحروف اس واقعہ کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کاش ہمارے بزرگ، نوجوان، بچے، عورتیں سبھی دینی تعلیم سے آراستہ ہوتے تو ایسے بےجا اعتراض اور خود ساختہ معیار جنم نہ لیتے۔ اور اگر مذکورہ بزرگ کے ہاتھ میں نظام ہوتا تو پاکستان میں کوئی بیوی اپنے خاوند سے بات بھی نہ کرسکتی اور اس کے لبوں پر یہ شعر رہتا: اس سے اچھا تھا کہ آتی ہی نہ بہاریں ناصر پھول بن کر جو کلیوں کو بکھر جانا تھا اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی تھیں۔ انھوں نے رو رو کر مالک کائنات سے فریاد کی، انہیں یقین تھا کہ ان کی پاکدامنی کا اعلان کیا جائے گا۔ شاید کہ اللہ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلا دیں۔ فرماتی ہیں، ایک دن میرے ماں باپ (یعنی حضرت ابو بکرصدیق اور ام رومان رضی اللہ عنہا) میرے
Flag Counter