Maktaba Wahhabi

219 - 306
اپنے پاس نہ رکھیں؟یا پھر اپنے والد کی حکم عدولی کریں؟کیا ایسا کرنے سے ہم گناہگار ہوں گے؟ جواب۔ہم آپ لوگوں کے مشکور ہیں کہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں،اس کاخیال رکھتے ہیں،اس کی ضروریات کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اس کے حقوق پورے کررہے ہیں،البتہ آپ نے جو سوال کیا ہے اس کاجواب کچھ اس طرح ہے کہ آپ کے والد صاحب کی یہ بات کہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک نہ کریں،صحیح نہیں ہے۔آپ لوگوں کے ذمہ سے آپ کی والدہ کا حق ساقط نہیں ہوسکتا،آپ کو ان کی خدمت کرنا ہوگی۔ ماں کی خدمت نہ کرنا خالق کی نافرمانی ہے اور خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت ہرگز جائز نہیں ہے۔آپ کے ساتھ آپ کی والدہ کے رہنے کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگر جس مکان میں آ پ رہ رہے ہیں وہ آپ کے باپ کی ملکیت ہے اور آپ لوگوں کی ملکیت نہیں ہے تو باپ کی اجازت کے بغیر آپ اپنی والدہ کو اس گھر میں نہیں رکھ سکتے۔اگر وہ اجازت دے دے تو پھر بھی آپ کی والدہ کو آپ کے والد سے پردہ کرنا ہوگا اور اس سے دور رہناہوگا۔اگرآپ کاباپ راضی نہ ہوتو بہتر ہے کہ آپ اپنی والدہ کے لیے الگ گھر کااہتمام کریں۔ اگر یہ گھر جس میں آپ ٹھہرے ہوئے ہیں اوروہ آپ کی ملکیت ہے اور آپ کا والد آپ کے پاس رہتا ہو یا آپ کو ملنے کے لیے آتاہو تو پھر اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ کو منع کرے یا آپ کی والدہ کو تمہارے پاس نہ آنے دے۔آپ کی والدہ آپ کی محتاج ہے،اسےآپ کے حسن سلوک کی ضرورت ہے،وہ اکیلی ہے اور آپ اس کی حقیقی اولاد ہیں،لہذاآپ جس قدر ممکن ہو اپنی والدہ سے نیکی اور تعاون کریں۔ نوٹ ٭ : میں مترجم عرض کررہاہوں کہ والدین کے اختلاف کی شکل میں بچے پریشان ہوجاتے ہیں۔وہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ باپ کا حکم مانیں کہ ماں کا ساتھ دیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے قدموں تلے جنت جبکہ باپ کوجنت کا دروازہ فرمایا لہذا بچے سوچتے ہیں کہ ہم کدھر جائیں؟ اس صورتحال میں بچوں کو یہ ادراک کرنا چاہیے کہ شریعت کی نظر میں حق پر کون ہے؟اگر باپ ہے تو باپ کا حکم مانیں اور ماں کے ساتھ اچھاسلوک کرتے رہیں۔اگر ماں ہے تو ماں کا حکم مانیں اور باپ کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں۔سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لا طاعة
Flag Counter