Maktaba Wahhabi

238 - 306
واقع ہو جاتی کیونکہ آپ نے اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کر دئیے ہوتے۔ اگرچہ آپ کی بیوی نے نہ سنے ہوتے یا آپ کے پاس بیٹھے کسی شخص نے نہ سنے ہوتے۔ البتہ فقط خیال یا دل کی سوچ کی بناء پر بغیر الفاظ کی ادائیگی کے کچھ نقصان نہیں ہے،کیونکہ اللہ نے اس امت سے دل کے خیالات کو معاف کردیا ہوا ہے، جب تک وہ زبان سے ادا نہ کر لیں یا اس پر عمل نہ کریں۔(صالح بن فوزان) نوٹ٭: میں مترجم عرض کر رہا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہماری بربادی کی بہت سی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ دین سے دوری ہے۔ سائل کہتا ہے میں نے سوچا کہ لوگ بیوی کو طلاق کیسے دیتے ہیں؟اور اس کا تجربہ دل ہی دل میں کرنے کی کوشش کی۔یہ جہالت اور دینی تعلیمات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ چند سال قبل راقم الحروف جماعت کے بزرگ عالم دین حافظ احمد اللہ حامد حفظہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک ریٹائر کرنل جو کہ ایم اے انگلش بھی کیے ہوئے تھا، ان کے پاس طلاق کا مسئلہ دریافت کرنے آیا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی تھی، وہ بھی انتہائی پڑھی لکھی خاتون تھی۔وجہ تنازعہ یہ تھی کہ بیوی خاوند کو اکثر طعنے دیتی تھی کہ تم کسی کام کے نہیں، تمھیں کچھ نہیں آتا، تمھیں کسی کام کا پتہ نہیں، اور کہتی تھی کہ سارے امور میری وجہ سے چل رہے ہیں۔ کرنل صاحب نے کہا اگر مجھے کسی چیز کا علم نہیں تو مجھ سے طلاق لے لو۔ بیوی کہتی ہے کہ تمھیں طلاق دینے کا بھی پتہ نہیں، خاوند کہتا ہے میں طلاق دے سکتا ہوں، مجھے طلاق دینے کا پتہ ہے۔وہ کہتی ہے تو طلاق بھی نہیں دے سکتا۔ بحث طول پکڑتی ہے۔ خاوند نے تین پیپر لیے، ان پر یہ عبارت درج کی: ’’میں اپنی بیوی کو پورے ہوش وحواس میں(۔۔۔۔)دیتا ہوں۔ پھر ایک کاغذ پر خالی جگہ میں ’’طلاق‘‘ لکھ کردے دیا اور کہا باقی ہر دو کاغذ میں جگہ خالی ہے تمھیں اختیار ہے۔اگر تم طلاق چاہتی ہو تو خود ہی لفظ طلاق لکھ لینا، ایک ماہ بعد بیوی نے خود ایک کاغذ کی خالی جگہ پر لفظ ’’طلاق‘‘ لکھ دیا۔کسی نےکہا تمہاری بیوی کو طلاق ہو چکی ہے۔وہ پڑھا لکھا جاہل انسان محترم حافظ صاحب کو کہہ رہا تھا کہ میں علماءنے سے پوچھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ دو طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔ لیکن حافظ صاحب ایسے کیسے طلاق ہوگئی؟ میں تو اپنی بیوی کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ مجھے
Flag Counter