Maktaba Wahhabi

53 - 306
فریضہ خود دولہا سر انجام دیتا ہے۔یہی ایجاب وقبول نکاح کا ستون ہے۔ یہ ایجاب و قبول اصالتاً(خود)اور وکالتاً دونوں طرح ادا کرنا جائز ہے البتہ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ نکاح خواں لڑکی کے پاس جائے اور اس سے نکاح کی پیشکش کرنے کے اختیارات حاصل کرے، یہ کام لڑکی کا باپ، چچا، بھائی یا اور کوئی محرم رشتہ دار سر انجام دے۔ نکاح کے لیے کم از کم دوگواہوں کا ہونا ضروری ہے جو مسلمان عاقل اور بالغ ہوں، پھر ان گواہوں کے لیے طرفین کے ایجاب و قبول کی سمات ضروری ہے۔ صرف ایک گواہ کی موجود گی میں نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ اگر گواہوں نے صرف ایک فریق کا کلام (ایجاب یا قبول)سنا یا ایک گواہ نے ایک کا اور دوسرے نے دوسرے کا تو اس طرح بھی نکاح نہیں ہو گا،یعنی یہ امر لازم ہے کہ دونوں گواہ ایجاب و قبول کے وقت موجود ہیں اور اپنے کانوں سے ایجاب و قبول کی سماعت کریں۔ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ شہادت، نکاح کے لیے شرط ہے۔حدیث میں ہے۔ ’’سرپرست اوردو دیانتدار گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہو تا۔‘‘[1] البتہ اس میں اختلاف ہے کہ شہادت کی یہ شرط صحت نکاح کے لیے ہے یا تکمیل نکاح کے لیے۔ ہمارے نزدیک صحت نکاح کے لیے شہادت بنیادی شرط ہے۔ چنانچہ اس وقت تک نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا جب تک کہ ایجاب وقبول کے وقت گواہ موجود نہ ہوں۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ [2] (ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد)
Flag Counter