Maktaba Wahhabi

56 - 306
الگ حق مہر مقرر نہ کیا جائے۔[1] واضح رہے کہ مہر ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتاکیونکہ نتیجہ اور انجام کے اعتبار سے دونوں صورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں۔اگرناچاقی کی صورت میں ایک لڑکی کا گھر برباد ہوتا ہے تو دوسری بھی ظلم وستم کا نشانہ بن جاتی ہے۔قطع نظر کہ نکاح کے وقت ان کا الگ الگ حق مہر مقرر کیا گیا تھا یا نہیں۔حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح کے ایک نکاح کو باطل قراردیا تھا حالانکہ ان کے درمیان مہر بھی مقرر تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا تھا۔‘‘[2] ہمارے نزدیک اس قسم کے نکاح کی تین صورتیں ممکن ہیں: 1۔نکاح کا معاملہ کرتے وقت ہی رشتہ لینے دینے کی شرط کرلی جائے یہ صورت بالکل باطل، حرام اور ناجائز ہے۔ 2۔نکاح کے وقت شرط تو نہیں کی البتہ آثار وقرائن ایسے ہیں کہ شرط کا سا معاملہ ہے۔انجام کے اعتبار سے یہ بھی شغار ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ صرف جواز کا حیلہ تلاش کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ 3۔نکاح کرتے وقت شرط بھی نہیں کی اور نہ ہی آثار وقرائن شرط جیسے ہیں۔اس صورت کو جائزقراردیا جاسکتاہے کیونکہ اس قسم کا تبادلہ نکاح محض اتفاق ہے۔اس طرح کے نکاح صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور میں متعدد مرتبہ ہوئے ہیں۔ صورت مسئولہ میں نکاح کی پہلی شکل ہے کہ خالو نے بات چیت کے وقت ہی اس شرط کا اظہار کردیا تھا لیکن دوسری طرف سے اس شرط کو قبول نہیں کیا گیا بلکہ آئندہ کے حالات وظروف پر اسے چھوڑدیا گیا پھر لڑکی کے والد نے کسی اور کے ساتھ اس کی منگنی بھی کردی ہے۔اب برادری کی طرف سے منگنی توڑ کر خالو زاد سے منگنی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا کتاب وسنت کے خلاف ہے۔(واللہ اعلم) (ابومحمد حافظ عبدالستار الحماد)
Flag Counter