Maktaba Wahhabi

62 - 306
کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو۔‘‘[1] اورسیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت بیان کرتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(حق مہر دینے کے لیے) تلاش کرو چاہے لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو۔‘‘[2] یہ اس شخص کو فرمایا تھا جوعورت سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس کے پاس کوئی خاص مال و دولت نہیں تھا۔ اگر کسی عورت کا نکاح حق مہر کے بغیر کردیا جائے تو اس کے لیے مہر مثل دینا واجب ہے،(مہر مثل سے مراد اس عورت کے خاندان کی دیگر عورتوں کا اوسطاً حق مہر ہے۔مترجم) یہ بھی ممکن ہے کہ انسان قرآن وحدیث کی تعلیم سکھانے کے بدلے عورت سے شادی کر لے، یہی اس کا مہر ہوگا۔ اسی طرح نفع بخش علوم سکھانے کے عوت میں بھی شادی کی جا سکتی ہے، یہی اس کا حق مہر ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ شخص سے فرمایا تھا کہ( اگر تیرے پاس کچھ نہیں تو)بتاؤ تجھے قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں، فرمایا اس عورت کو یہ سورتیں سکھلاؤ، جاؤ میں نے اسی مہر کے عوض تمہاری شادی اس سے کردی۔ لہٰذا ایسا شخص جو اتنا تنگ دست ہو کہ اس کے پاس مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز نہ ہوتو وہ قرآن وحدیث اور نفع بخش تعلیم کو بھی مہر بنا سکتا ہے اور اگر اس کے پاس مال واسباب ہیں تو مہر لازمی مقرر کرنا ہو گا۔ مہر عورت کا حق ہے جس میں کوئی دوسرا حقدار نہیں۔ اگر عورت اپنی رضامندی، رغبت اور خوشی سے مہر معاف کردے تو پھر آدمی پر کچھ لازم نہیں، بشرطیکہ عورت اپنی رضا مندی، پورے ہوش و حواس اور بغیر کسی دباؤ کے ایسا کرے اور وہ عاقل ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو،وہاں اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ مال چھوڑدیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔‘‘[3] (عبدالعزیز بن باز) نوٹ: میں مترجم عرض کر رہا ہوں کے مہر کی مقدار شریعت نے مقرر نہیں کی ہے۔ یہ شادی
Flag Counter