Maktaba Wahhabi

69 - 306
حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔‘‘ جب عورت کے اولیاء اس کانکاح نہ کریں اور عورت نکاح کرنا چاہتی ہو تو ایسی صورت میں سلطان و حاکم ولی ہوتا ہے۔ اسی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہے: (فإنِ اشتجَروا ؛ فالسُّلطانُ وليُّ من لا وليَّ لهُ.) ’’اگراولیا جھگڑے سے کام لیں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔‘‘ اس کی شرح میں شارح ترمذی علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رقم طراز ہیں: (لأن الولي إذا امتنع من التزويج فكأنه لا ولي لها فيكون السلطان وليها وإلا فلا ولاية للسلطان مع وجود الولي)[1] ’’اس لیے کہ جب ولی عورت کی شادی میں مانع ہو تو گویا عورت کا کوئی ولی نہیں، لہٰذا سلطان اس کا ولی ہو جائے گا۔ بصورت دیگر ولی کی موجودگی میں سلطان کی ولایت درست نہیں۔‘‘ ولی کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ عورت کے لیے نیک جذبات رکھتا ہو، رشدوفلاح والا ہواور جو ولی عورت کے چاہنے کے باوجود اس کی شادی نہ کرے اور دلچسپی ہی نہ لے وہ ولی ہدایت یافتہ نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (واخرجه سفيان في جامعه ومن طريق الطبراني في ’’الاوسط’‘ باسناد آخر حسن عن ابن عباس بلفظ لا نكاح الا بولي مرشد اوسلطان )[2] ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسند حسن سفیان کی جامع اور اسی کے طریق سے طبرانی کی اوسط میں حدیث ان لفظوں سے ہے۔ ’’ولی مرشد (رشدو ہدایت والا)یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ یہ حدیث طبرانی اوسط(1/318،ح525)،التلخیص الحبیر(3/162)
Flag Counter