Maktaba Wahhabi

104 - 462
نے گو طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے، لیکن اس درجہ کی دوسری کتابوں سے ’’سنن دارقطنی‘‘ کہیں ارفع و اعلیٰ ہے اور اس میں اگرچہ ضعیف، شاذ اور منکر روایات پائی جاتی ہیں، لیکن اکثر مقامات پر ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے اور ان کے معلول ہونے کا ذکر ہے۔ جس کی وجہ سے ’’سنن‘‘ میں بجائے نقص کے خوبی پیدا ہو گئی ہے۔ علمائے فن نے حسن حدیث کی معرفت کے لیے اسے معیار قرار دیا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ومن مظان الحسن سنن الدارقطني فإنہ نص علی کثیر منہ‘‘[1] حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے حدیث کی فی الجملہ صحیح کتابوں میں سنن دارقطنی کو بھی شمار کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’إن السلف والخلف قد أطبقوا علی أن أصح الکتب بعد کتاب اللّٰه سبحانہ وتعالیٰ البخاري ثم مسلم ثم الموطأ ثم بقیۃ الکتب الستۃ وھي سنن أبي داود والترمذي والنسائي وابن ماجہ والدارقطني الخ‘‘[2] بالکل اسی قسم کا خیال طاش کبریٰ زادہ نے بھی ظاہر کیا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ ’’التقریب‘‘ میں صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ صحیح احادیث کا معیار ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب کوئی قابلِ اعتماد مصنف یا قابلِ اعتماد تصنیف میں اس کی صحت کی تصحیح کر دی گئی ہو تو وہ حدیث صحیح ہو گی۔‘‘
Flag Counter