Maktaba Wahhabi

443 - 462
میں برصغیر کی تقسیم کے بعد مولانا عطاء اللہ حنیف تشریف نہ لا سکے تو حضرت صوفی صاحب نے شیخ الحدیث کے بلند منصب[1] کی ذمے داریاں بھی آپ کے سپرد کر دیں اور یوں آپ وہاں بخاری شریف کا بھی درس دیتے رہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو تدریس و تفہیم کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ مشکل ترین مسائل اور عبارتوں کو آسان لفظوں میں ایسے حل کرتے کہ طلبا اش اش کر اٹھتے۔ میں نے ان کے بعض شاگردوں سے تو یہاں تک سنا کہ روزِ قیامت امید ہے اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں سے نظرِ عفو فرمائیں گے مگر ڈر ہے کہ ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ میں نے تمھیں درس و تدریس اور تبلیغ و تفہیم کا جو ملکہ دیا تھا، اسے کیوں چھوڑ دیا تھا تو ان کے پاس اس کا معقول جواب نہ ہو گا۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں حضرت مولانا چیمہ مرحوم بجھے بجھے سے رہتے اور بعض گھریلو الجھنوں کی بنا پر افسردہ رہتے تھے، ایک بار انھوں نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اس پریشانی کا سبب میرا تدریس و تعلیم سے انقطاع ہے، یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے معافی کی دعا کرنے لگتے اور فرطِ غم سے آنکھیں چھلکنے لگتیں۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ ملتان کے دار الحدیث میں: پاکستان بنا تو آپ اوڈانوالہ میں بخاری شریف کا درس دیتے تھے، ایک دو سال بعد بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر آپ کو ۴۹ یا ۱۹۵۰ء میں اوڈانوالہ کو خیرباد کہنا پڑا، جس کی تفصیل یہاں مناسب نہیں۔ دل برداشتہ ہو کر کاروبار کا آغاز کیا، مگر آپ کے علم و فضل کی شہرت کی بنا پر حضرت مولانا ملک عبدالعزیز اور شیخ عبدالرشید صدیقی رحمہما اللہ آپ کو باصرار ملتان لے گئے۔ انھوں نے یہ کوشش حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کے
Flag Counter