Maktaba Wahhabi

119 - 462
’’محمد بن عطاء مجہول‘‘ (رقم: ۱۹۲۸) لیکن ان کا یہاں محمد بن عطا کو مجہول کہنا صحیح نہیں۔ محمد بن عطا سے مراد یہاں محمد بن عمرو بن عطا ہیں۔ راوی نے جب اسے دادا کی طرف منسوب کیا تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کو ایک دوسرا راوی خیال کرتے ہوئے مجہول کہہ دیا۔ محدث ڈیانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ’’قال البیھقي في المعرفۃ وھو محمد بن عمرو بن عطاء لکنہ لما نسب إلی جدہ فظن الدارقطني أنہ مجھول ولیس کذلک‘‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی مطابقت میں حافظ عبدالحق رحمہ اللہ نے بھی ’’احکام‘‘ میں اسے مجہول کہا ہے، لیکن حافظ ابن القطان رحمہ اللہ نے اس پر تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’جب سنن کی سند میں محمد کو دادا کی طرف منسوب کیا گیا تو دارقطنی رحمہ اللہ اسے پہچان نہ سکے تو اسے مجہول کہہ دیا اور عبدالحق نے انہی کی متابعت میں اسے مجہول کہہ ڈالا، حالانکہ محمد بن عمرو بن عطاء ثقات سے ہیں۔‘‘ لیکن اس قسم کے سہو اور عدمِ معرفت کی بنا پر امام دارقطنی رحمہ اللہ کی رفعتِ شان اور علوِ مرتبت پر کسی قسم کا حرف نہیں آتا اس قسم کے امور کو اگر باعثِ طعن قرار دیا جائے تو شاید محدثین میں سے کوئی بھی ایسے طعن سے محفوظ نہ رہے۔ بعض کتبِ صحاح سے تقابل: امام دارقطنی رحمہ اللہ ’’سنن‘‘ میں بسا اوقات ائمۂ ستہ سے روایت بیان کرتے ہوئے ان کی کتاب اور اس روایت کے الفاظ وغیرہ میں باہم اتفاق یا اختلاف کو بھی بیان کرتے ہیں۔ مثلاً کتاب الصیام میں حضرت ابن عمر کی جو روایت بواسطہ
Flag Counter