Maktaba Wahhabi

106 - 462
شروح و تعلیقات وغیرہ لکھی ہیں۔ اس اعتبار سے بھی امام دارقطنی رحمہ اللہ کی تصانیف کو کوئی کم حیثیت حاصل نہیں۔ سنن دارقطنی ہی لیجیے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’إتحاف المھرۃ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں دس کتابوں کے اطراف ذکر کیے ہیں، ان میں سنن دارقطنی کو بھی شامل کیا ہے، بقیہ کتب کے نام یہ ہیں: موطا مالک، مسند شافعی، مسند احمد، سنن دارمی، ابن خزیمہ، ابن حبان، مستخرج ابو عوانہ، مستدرک حاکم، منتقی ابن جارود، شرح معانی الآثار۔ یوں تو یہ کل گیارہ کتابیں ہو جاتی ہیں، لیکن چونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے پاس ابن خزیمہ کا مکمل نسخہ نہ تھا۔ علامہ الکتانی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق اس کا ایک ربع ہی ان کے پاس تھا۔ بایں وجہ انھوں نے دس ہی کا اعتبار کیا ہے۔ علامہ عراقی رحمہ اللہ نے سنن دارقطنی کے رجال پر مستقل کتاب لکھی، جو تہذیب الکمال کے رجال کے علاوہ ہیں۔[1] حافظ قاسم بن قطلوبغا (م ۸۷۹ھ) نے بھی رجال کتب عشرہ میں سنن دارقطنی کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ نے چھے کتابوں کے رجال پر کام کیا ہے، ان میں سنن دارقطنی بھی ہے۔[2] اور ابو اسحاق المزکی رحمہ اللہ نے سنن کی تخریج کی ہے۔[3] علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ میں جن کتابوں کی احادیث کی تخریج کی ہے، ان میں سنن دارقطنی کو بھی اپنا ماخذ بنایا ہے اور اس کی علامت ’’قط‘‘ بتلائی ہے اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے اس کی رباعیات کو جمع کیا ہے۔[4]
Flag Counter