Maktaba Wahhabi

109 - 462
’’ھذا أمر لا یختص بہ الطبراني فلا معنی لإفرادہ الیوم بل أکثر المحدثین في الأعصار الماضیۃ من سنۃ مأتین وھلم جراً إذا ساقوا الحدیث بإسنادہ اعتقدوا أنھم برؤوا من عھدتہ۔ واللّٰه أعلم‘‘[1] بالکل اسی قسم کی بات علامہ ابن عبدالہادی نے کہی ہے: ’’إن من عادۃ الدارقطني و أمثالہ أن یذکروا ھذا في السنن لیعرف‘‘[2] یعنی یہ بات امام طبرانی رحمہ اللہ ہی کے ساتھ مختص نہیں، بلکہ دوسری صدی ہجری سے اکثر محدثین نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ جب وہ حدیث کو سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تو اس طرح خود کو ذمہ داری سے سبکدوش کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اس بات کو باعثِ طعن نہیں بنایا، بلکہ اس کے باوجود حافظ عبدالغنی، امام حاکم، خطیب بغدادی، سمعانی، ابن اثیر، علامہ نووی، حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ وغیرہ نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کی توثیق کی ہے۔ علاوۂ ازیں خود علامہ عینی رحمہ اللہ نے ’’سنن دارقطنی‘‘ کو کتب معتمدہ میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ عمدۃ القاری میں حدیث: ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’رواہ أیضا أحمد في مسندہ والدارقطني وابن حبان والبیہقي ولم یبق من أصحاب الکتب المعتمد علیھا من
Flag Counter