Maktaba Wahhabi

113 - 462
اِلا یہ کہ کوئی صحیح نسخہ مل جائے۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اسی اختلافِ نسخ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تختلف النسخ من کتاب الترمذي في قولہ: ھذا حدیث حسن أو حدیث حسن صحیح ونحو ذلک فینبغي ان تصحیح أصلک بہ بجماعۃ أصول وتعتمد علی ما اتفقت علیہ‘‘[1] شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اسی الجھن کو رفع کرنے کے لیے جامع ترمذی کے چھے مختلف نسخوں جن میں تین خطی تھے، کو جمع کر کے ایک صحیح ترین نسخہ تیار کرنے کی کوشش کی۔ مگر ابھی وہ کتاب الصلاۃ ہی مکمل کر پائے تھے کہ جان جاں آفرین کے سپرد کر دی اور یوں یہ کام ادھورا رہ گیا۔ اس کی تکمیل کی کوشش گو شیخ محمد فواد عبدالباقی اور شیخ ابراہیم عطوہ نے کی۔ لیکن تصحیح متن کا وہ التزام جو شیخ شاکر رحمہ اللہ کے مرہونِ منت تھا، نہ ہو سکا اور اگر اسی نوعیت سے یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا تو یقینا اسے جامع ترمذی کا صحیح نسخہ قرار دیا جاتا۔ جامع ترمذی کے علاوہ سنن ابی داود، سنن نسائی کو بھی اگرچہ مظان حسن سے شمار کیا گیا ہے، لیکن ان کے کلام میں یہ جملہ کہیں لکھنے پڑھنے میں نہیں آیا۔ اس کے علاوہ سنن دارقطنی ہی ایک ایسی کتاب ہے کہ اس میں دارقطنی رحمہ اللہ کئی مقامات پر یہ تصریح فرما دیتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے مقدمہ میں تصریح کی ہے۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ بستان المحدثین میں فرماتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی سند کو بلند کرنے والی سند خماسی ہے۔ جیسا کہ ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں کہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فنی اعتبار سے اس کی حیثیت بھی ذکر کرتے ہیں۔
Flag Counter