Maktaba Wahhabi

176 - 462
سے اور کبھی ’’قراءۃ علیہ وأنا أسمع‘‘ اور کبھی ’’حدثنا البغوي قراءة علیہ‘‘ کے الفاظ سے اور کبھی صرف ’’حدثنا‘‘ کے لفظ ہی پر اکتفا کرتے ہیں، حالانکہ وہ روایت انھوں نے امام بغوی رحمہ اللہ سے یا تو بطور املا اخذ کی ہوتی ہے اور یا ’’قراءة علیہ وأنا أسمع‘‘ کے طریق سے۔ اسی طرح جہاں کہیں ’’قریٔ علی أبي القاسم البغوي حدثکم فلان‘‘ کے الفاظ پر اکتفا کی ہے جو ’’موھم إلی التدلیس‘‘ ہیں تو ان الفاظ سے یہ کسی صورت لازم نہیں آتا کہ انھوں نے یہ روایت امام بغوی رحمہ اللہ سے سنی ہی نہیں، بلکہ وہ دراصل اپنی مسموعات کے دو طریق میں سے ایک طریق کی وضاحت ’’قریٔ‘‘ کے الفاظ سے کرتے ہیں کہ یہ روایت بطورِ قراء ت میں نے ان سے لی ہے نہ کہ بطریقِ املا۔ جو ان کی دقتِ نظر پر ایک بڑی دلیل ہے، لیکن ابن طاہر نے اسے تدلیس پر محمول کیا ہے جو درست نہیں۔ میں یہ حروف لکھ چکا تھا کہ علامہ الحلبی رحمہ اللہ کی ’’التبیین لأسماء المدلسین‘‘ دیکھنے کا موقع ملا، جس کے آخر میں علامہ موصوف نے حافظ صلاح الدین العلائی سے نقل کیا ہے کہ جس راوی نے اپنے شیخ سے روایات اجازتاً، مناولتاً یا وجادتاً کے طریق سے لی ہوں اور وہ انھیں اخبرنا سے بیان کرے تو اسے تدلیس کے باب میں شمار نہیں کیا جاتا۔ پھر اس کی چند مثالیں ذکر کرتے ہوئے ابن طاہر مقدسی کا مندرجہ بالا قول جو انھوں نے امام دارقطنی کے متعلق کہا ہے، نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اس قسم کی روایات انھوں نے امام بغوی رحمہ اللہ سے یا تو اجازہ کی صورت میں لی ہیں تو یہ روایات متصل ہوئیں یا پھر وجادہ کے طور پر حاصل کی ہیں تو اس سے ان کا صحیح ہونا ثابت ہوتا ہے، خصوصاً جب کہ تیسری صدی کے بعد تدلیس کا وجود انتہائی قلیل پایا جاتا ہے، جیسا کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں:
Flag Counter