Maktaba Wahhabi

235 - 462
سے بھی یہ قول منقول ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک تیسرا قول بھی مروی ہے کہ ناف کے نیچے یا اوپر سینے کے نیچے جہاں چاہے ہاتھ باندھ سکتا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ سے ایک قول سینے پر ہاتھ باندھنے کا بھی منقول ہے۔ علامہ سندھی رحمہ اللہ بھی سینے پر ہاتھ باندھنا پسند کرتے ہیں اور اس کی تائید میں ان کا یہ رسالہ ہے جس میں انھوں نے اپنے دعوے کو احادیث و آثار سے مدلل کرتے ہوئے حدیث ’’تحت السرۃ‘‘ کی حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ بحث کے اختتام پر بڑے وثوق سے فرمایا ہے: ’’وبما تقدم أن لوضع الأیدي علی الصدور فی الصلاۃ أصلاً أصیلاً و دلیلاً جلیلاً فلا ینبغي لأھل الإیمان الاستنکاف عنہ‘‘[1] نہایت نامناسب ہو گا اگر ہم یہ ذکر نہ کریں کہ علامہ سندھی رحمہ اللہ کے جواب میں ان ہی کے شاگرد محمد قائم سندھی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے ’’فوز الکرام بما ثبت في وضع الیدین تحت السرۃ وفوقھا تحت الصدر عن الشفیع المظلل بالغمام‘‘ رسالے کے مندرجات سے مؤلف موصوف رحمہ اللہ کی جلالتِ شان کا اندازہ ہوتا ہے۔ پورا رسالہ نہایت قیمتی اور اصولی معلومات پر مشتمل ہے اس کا قلمی نسخہ حضرت مولانا سید محب اللہ شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ کے پاس موجود ہے اور بندہ کے پاس بھی اسی نسخے سے منقولہ نسخہ کی نقل ہے (والحمد للّٰه علی ذلک) مگر افسوس کہ دو اہم جگہ پر بیاض ہے جو اصولِ نقد و جرح سے متعلق ہیں۔ علامہ قائم سندھی رحمہ اللہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ناف کے نیچے اور ناف کے اوپر مگر سینے کے نیچے جہاں چاہے ہاتھ باندھنے چاہئیں سینے پر ہاتھ باندھناکہ وہ صرف سینے پر ہوں،
Flag Counter