Maktaba Wahhabi

291 - 462
کوشش کی ہے۔ مگر انھوں نے اس خیال کی پرزور تردید کی ہے کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ کا نسخہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ نے خرید لیا تھا اور اس کو پیشِ نظر رکھ کر انھوں نے ’’بذل المجہود‘‘ کی تکمیل کی۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ کی تکمیل نہیں ہوئی، اگر مکمل ہو کر زیورِ طبع سے آراستہ ہوتی تو سنن ابو داود کے لیے ’’لا مقصود إلا ھو‘‘ کا مصداق ہوتی اس کی افادیت کا اندازہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے، کہتے ہیں: ’’حتی رأیت جزأ واحداً من الشرح الذي ألفہ الشیخ أبو الطیب شمس الحق المسمی بغایۃ المقصود، فوجدتہ لکشف کنوزاتہ کافلاً و بجمیع مخزوناتہ حافلاً فللّٰہ درہ قد بذل فیہ وسعہ وسعی سعیہ‘‘[1] ’’میں نے ایک جز ’’غایۃ المقصود‘‘ کا دیکھا جو شیخ ابو الطیب شمس الحق رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ میں نے اسے ابو داود کے پوشیدہ خزانوں کو کھولنے والی اور تمام جواہرات سے بھری ہوئی پایا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل فرمائے، انھوں نے شرح کا حق ادا کیا ہے۔‘‘ مولانا عبدالرشید بن مولانا ظہیر احسن نیموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وھذا شرح نفیس لیس لہ نظیر بین شروحہ وقد رزق بالقبولیۃ بین العلماء الأعلام تقبل اللّٰه منہ‘‘[2] ’’یہ شرح بہت عمدہ ہے اور ابو داود کی تمام شروح میں سے اس کی نظیر نہیں۔ علما و اعلام نے اسے شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس
Flag Counter