Maktaba Wahhabi

301 - 462
جو ’’غایۃ المقصود‘‘ کا خلاصہ ہے۔مولانا شمس الحق ڈیانوی نے اس کی تالیف میں مولانا رفیع شکرانوی کی شرح ابو داود سے بہت نفع اٹھایا، لیکن افسوس کہ خود مولانا شکرانوی کی شرح ضائع کر دی گئی یا ہو گئی۔[1] مگر افسوس تو مولانا گیلانی مرحوم پر ہے کہ اس بے پر کی ہوائی میں ان کا اخاذ ذہن یہ کام نہ کر سکا کہ ’’عون المعبود‘‘ خلاصہ تو ہے ’’غایۃ المقصود‘‘ کا ’’اگر مولانا شکرانوی کی شرح ابو داود سے نفع مولانا ڈیانوی نے اٹھایا تو وہ ’’غایۃ المقصود‘‘ میں اٹھایا ہو گا نہ کہ ’’عون المعبود‘‘ میں۔ مزید لطف یہ کہ مولانا شفیع احمد بہاری تو اسے محض مولانا شکرانوی کا شرح ابو داود لکھنے کا خیال ظاہر کرتے ہیں، مگر مولانا گیلانی ان کی شرح سے ’’عون المعبود‘‘ میں باقاعدہ نفع اٹھانے کی بات کرتے ہیں اور مولانا شکرانوی کی شرح کے بارے میں یہ تاثر بھی کہ وہ ضائع کر دی گئی یا ہو گئی۔‘‘ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون جب کہ حقیقت اس افسانے کی کچھ بھی نہیں، چنانچہ مولانا شفیع احمد بہاری اسی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حق یہ ہے کہ اس کی کوئی اصلیت نہیں، ممکن ہے کہ مولانا شکرانوی کا خیال ہوا ہو، مگر اس کا کوئی اثر مولانا ڈیانوی نے نہیں لیا۔‘‘[2] مولانا ڈیانوی کے شرح لکھنے کا سبب مولانا سید محمد تلطف حسین جو مولانا ڈیانوی کے ہم عصر اور ہم مشرب تھے، یوں بیان کرتے ہیں: ’’ہم نے ایک جماعت کی موجودگی میں حضرت میاں نذیر حسین صاحب رحمہ اللہ سے بارہا سنا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ کے پاس ابو داود کا
Flag Counter