Maktaba Wahhabi

347 - 462
بل أمر أکثر منھم من کان ھو أفضل مني وأکمل وأعلم لأخذ الإجازۃ مني‘‘[1] ’’المکتوب اللطیف‘‘ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے حجاز اگرچہ حضرت میاں صاحب دہلوی کی قدر و منزلت کا اعتراف کر چکے تھے، مگر مخالفین کے غلط پروپیگنڈہ سے قدرے متاثر تھے۔ انہی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ میاں صاحب کو صرف حضرت شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ سے تلمذ ہے اور ان کا سلسلۂ سند صرف اسی واسطہ پر محصور ہے اور اسی بات کا ذکر انھوں نے حضرت محدث ڈیانوی کے پاس کیا تو انھوں نے وضاحت کی حضرت شاہ اسحاق رحمہ اللہ کے علاوہ مختلف شیوخِ وقت سے بھی انھیں شرفِ تلمذ ہے جب کہ حضرت میاں صاحب کو ان شیوخِ وقت سے معاصرت کا بھی شرف ہے، جنھوں نے اپنی مرویات کی عام اجازت دی تھی اور وہ یہ ہیں: 1. علامہ عبدالرحمان بن سلیمان مؤلف ’’النفس الیماني والروح الریحاني‘‘ 2. مسند دمشق علامہ عبدالرحمان الشامی۔ 3. الشیخ محمد عابد السندھی ثم المدنی۔ 4. الشیخ عبداللطیف البیروتی الشامی اور حضرت میاں صاحب بوجۂ معاصرت ان شیوخ کے اجازۂ عام میں شامل ہیں۔ علمائے حجاز نے جب یہ بات سنی تو خاموش ہو گئے اور حضرت میاں صاحب سے اجازہ کی تمنا کی۔ اس تفصیل کے بعد محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے اس اجازۂ عامہ جو کہ حدیث کے اخذ و ادا کا ایک طریقہ ہے، پر فنی نقطۂ نظر سے بحث کی اور یہ کہنا بجا ہے: ’’الإجازۃ العامۃ‘‘ کے جواز پر یہ مکتوب اصولِ حدیث کی ایک اہم کڑی ہے۔ جس میں انھوں
Flag Counter