Maktaba Wahhabi

349 - 462
مشتمل ہے، جس میں مرزا پوری صاحب کے اعتراض کو ’’قولہ‘‘ سے نقل کر کے ’’أقول‘‘ سے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ یہ رسالہ ۱۳۰۲ھ میں مطبع انصاری دہلی سے طبع ہوا تھا۔ محدث ڈیانوی رحمہ اللہ کے علاوہ مولانا محمد سعید بنارسی رحمہ اللہ اور مولانا ابو المکارم محمد علی المتوفی نے بھی ’’القول المتین‘‘ کا جواب لکھا ہے۔ اس موضوع پر ہمارے ہندی علما نے خاصی طبع آزمائی کی ہے اور اس مسئلے میں فریقین نے ایک دوسرے کی تردید میں رسالے لکھے ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے احناف کی وکالت علامہ نیموی رحمہ اللہ نے بڑے شد و مد سے کی ہے، حالانکہ ان کے استاذ محترم مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اعتراف کیا ہے کہ ’’الإنصاف أن الجھر قوي من حیث الدلیل‘‘ ’’انصاف کی بات یہ ہے کہ اونچی آواز میں آمین کہنا دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔‘‘ ’’التعلیق الممجد‘‘ (ص: ۱۰۳) نیموی صاحب نے اس کے کفارے کی لاکھ کوشش کی، لیکن افسوس وہ ناکام گئی۔ چنانچہ جب انھوں نے ’’حبل المتین‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا، جس کا جواب مولانا محمد سعید بنارسی مرحوم نے ’’السکین لقطع حبل المتین‘‘ کے نام سے دیا جو ۱۳۱۹ھ میں ۱۴۰ صفحات میں مطبع سعید البنارس سے شائع ہوا۔ جس پر محدث ڈیانوی نے تقریظ لکھی۔ اس کے جواب میں نیموی صاحب رحمہ اللہ نے کوشش کی تو ’’رد السکین‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا جو ۱۸ صفحات پر مشتمل ہے اور ۱۳۱۲ھ میں لکھنؤ سے طبع ہوا تھا۔ جس کا جواب مولانا بنارسی رحمہ اللہ نے ’’سیف الموحدین‘‘ کے نام سے لکھا۔ اس کا جواب مولانا محمد قاسم ابو البقا عظیم آبادی نے ’’تردید السیف‘‘ کے نام سے دیا۔ جس کا جواب الجواب پھر بنارسی صاحب نے ’’التردید‘‘ کے نام سے دیا۔ علامہ نیموی رحمہ اللہ نے پھر اس کا جواب ’’رد الرد‘‘ کے نام سے لکھا
Flag Counter