Maktaba Wahhabi

373 - 462
حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں پڑھا سنا تھا کہ ان کے ہاں درسِ حدیث کا بڑا اہتمام ہوتا تھا۔ ’’پہلے وضو کرتے، ریش مبارک میں کنگھی کرتے، سرمہ لگاتے، عطر ملتے اور عمدہ پوشاک زیبِ تن کرتے اور یوں پورے وقار سے مسندِ درس پر جلوہ افروز ہوتے۔‘‘ بالکل یہی شان حضرت رحمہ اللہ کے درس میں دیکھنے میں آئی۔ بڑے اہتمام سے سفید لباس میں ملبوس وقت کی پابندی کے ساتھ تشریف لاتے۔ مسجد میں آتے ہی سنت کے مطابق تحیۃ المسجد ادا کرتے پھر درسِ حدیث میں مشغول ہو جاتے۔ دورانِ تعلیم ایک مرتبہ یوں ہوا کہ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ موسم بھی سخت سردی کا تھا، ہم کچھ ساتھی بیٹھے چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ آج اس حالت میں حضرت تشریف نہیں لا سکیں گے اور سبق کا ناغہ ہو جائے گا۔ مگر ایک ساتھی بھاگے بھاگے آئے اور یہ کہہ کر چونکا گئے کہ حضرت تشریف لے آئے ہیں۔ جلدی سے اٹھے کہ حضرت رحمہ اللہ حسبِ معمول تشریف لا کر تحیۃ المسجد ادا کر رہے تھے، بلکہ مجھ سے مولانا محمد علی صاحب مسلمؔ چیمہ نے ذکر کیا کہ آبادی حاکم رائے میں سکونت اختیار کرنے سے پہلے آپ روزانہ گوندلانوالہ سے سائیکل پر اسی اہتمام سے تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک دن بھی ہم نے انھیں تاخیر سے آتے نہیں دیکھا، بلکہ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں فرمایا کہ پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ مدرسہ میں ایک دن بھی تاخیر سے آنے کی نوبت نہیں آئی۔ مگر آه! آج یہ احساسِ فرض شناسی کہاں! تحیۃ المسجد پڑھ لینے کے بعد چار زانو ہو کر مسندِ درس پر نہایت وقار سے بیٹھ جاتے اور درس شروع ہو جاتا۔ حضرت کے ہاں عظمتِ حدیث کا یہ عالم تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی نشست میں ہمیشہ یونہی چار زانو بیٹھتے۔ بڑھاپے کی بنا پر تھکاوٹ ایک فطری عمل ہے، مگر اس کے باوجود اگر ضرورت محسوس کرتے تو صرف پاؤں اوپر نیچے کر
Flag Counter