Maktaba Wahhabi

390 - 462
ہوا تو وہاں الجامعہ کی مسجد میں جمعۃ المبارک کا خطبہ آپ ہی ارشاد فرماتے تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب رحمہ اللہ بھی بقیدِ حیات تھے اور جامع مسجد میں ان کے خطبہ جمعہ کا بیان ایک خصوصی شان لیے ہوتا تھا، جس میں علمی، فکری، ادبی شہ پاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنمائی کی جھلک بھی ہوتی اور وہ اپنی اہمیت کے پیشِ نظر ’’الاعتصام‘‘ میں شائع بھی ہوتے تھے، مگر اس کے باوجود راقم جمعہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ کی اقتدا میں ادا کرتا اور ہر خطبہ جمعہ کے بارے میں تجسس ہوتا کہ آج دیکھیں کس موضوع پر علم و تحقیق کے موتی بکھیرے جاتے ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا اور یقینا قارئین بھی حیران ہوں گے کہ تقریباً سال بھر کے خطباتِ جمعہ کا عنوان ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى ﴾ [الأعلیٰ: ۱۳۔۱۴] الآیۃ رہی۔ جس سے اس بات کی تائید ہو گئی جو میں الجامعۃ السلفیہ میں سن چکا تھا۔ اس سے آپ قرآن پاک کی تفسیر کے سلسلے میں ان کی معلومات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ شرائطِ مفسر ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’مفسر کے لیے ان شرائط کا ہونا ضروری ہے: صحیح الاعتقاد ہو، نیت اور ارادہ نیک ہو، علمِ حدیث اور اصولِ حدیث، لغات القرآن، اس سلسلے میں امام راغب کی ’’مفردات القرآن‘‘ کا ذکر بھی فرمایا کہ کم از کم اس پر کامل دسترس ہو۔ صرف و نحو، علمِ معانی، بیان اور بدیع، علم الفقہ و اصولہ، علمِ کلام اور علمِ قراء ت سے واقف ہو، اس کے ساتھ ساتھ تقویٰ و طہارت اور تعلق باللہ بھی ضروری ہے، تاکہ مشکلات میں اللہ تعالیٰ کا خصوصی فیضانِ قلب و فکر پر وارد ہو، جسے لوگ عموماً ’’علمِ وہبی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ ان تمام شرائط کے حامل تھے۔ سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾
Flag Counter