Maktaba Wahhabi

420 - 462
کہا: وہ صبح سے لکڑیاں لینے گیا ہے، ابھی تک واپس نہیں آیا، میں اس کے انتظار میں ہوں۔ وہ صاحب باہر ان کی تلاش میں نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شیر پر سوار لکڑیوں کا گٹھا رکھے آرہے ہیں۔ دیکھ کر حیران رہ گیا، ایک طرف یہ حالت ہے، ادھر گھر والوں کا حال یہ تھا دل کی بات اس بزرگ سے کہہ دی تو وہ فرمانے لگے: بھائی میں اللہ کی رضا پر راضی ہوں، شاید اسی بنا پر جانوروں کو بھی اللہ تعالیٰ نے میرا مطیع بنا دیا ہے۔ بلاشبہ مولانا اسی واقعہ کی ایک تصویر تھے، انھوں نے عمر بھر اپنی اہلیہ کی خدمت کی۔ حجِ بیت اللہ کے لیے ساتھ لے گئے اور ہر اہم مقام پر ساتھ ہو کر مناسکِ حج ادا کرائے۔ اہلیہ کا انتقال ہوا تو مولانا کو اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ یکے بعد دیگرے دو فرزند عبیداللہ اور شکیب انتقال کر گئے۔ مولانا نے اس صدمے کو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ بازار میں راہ چلتے ایک سکوٹر والا آپ سے ٹکرا گیا۔ پاؤں کی پچھلی جانب ٹخنے کے قریب زخم آیا، شوگر کے مریض تھے۔ تکلیف تقریباً چھے ماہ تک رہی، مگر مجال کبھی حرفِ شکایت بھی زبان سے نکلا ہو۔ میں نے عرض کی: آپ نے اس سکوٹر والے کو پکڑا نہیں؟ فرمانے لگے: ’’بھائی میں ’’نقشبندی‘‘ ہوں، میں نے اسے معاف کر دیا۔‘‘ حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ مرحوم کا مولانا مرحوم سے بڑا پیار تھا اور وہ ان کے انتہائی قدر دان تھے۔ تاہم بشری تقاضے کے مطابق کبھی مولانا چیمہ مرحوم پر اپنے علم و فضل کے علی الرغم چیمہ پن غالب آجاتا تو وہ مولانا مرحوم سے بھی الجھ پڑتے۔ ایک بار اسی نوعیت کے ایک واقعہ پر مولانا مرحوم سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور مولانا چیمہ مرحوم کے رویے کی بنا پر ادارے میں آنا جانا موقوف کر دیا، جس کا اس ناکارہ کو بڑا افسوس ہوا۔ میں نے لاکھ منت سماجت کی، مگر مولانا مرحوم نہ مانے۔ فرمایا: ’’مجھے چیمہ
Flag Counter