Maktaba Wahhabi

441 - 462
پڑتا، مولانا محمد عبداللہ آف گوبند پورہ فیصل آباد بھی انہی دنوں مدرسہ غزنویہ میں پڑھتے تھے، ایک روز انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ آئیں، آج میں تمھیں کھانا کھلاتا ہوں۔ چنانچہ دروازہ سلطان ونڈ کی جانب جو محلہ تھا، وہاں سے وہ روٹیاں لے کر آئے، ہم نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور انھوں نے کہا: تم دوست ہو، میرے ساتھ آجایا کرو، روٹی کا انتظام ہو جایا کرے گا، مگر میں نے انکار کر دیا کہ یوں روٹی تو اچھی مل جائے گی، مگر سبق ضائع ہو جائے گا۔ تقریباً ۱۹۴۲ء میں مدرسہ غزنویہ سے فراغت کے بعد مولوی فاضل کے امتحان کا شوق پیدا ہوا، ان دنوں باقاعدہ قادیان ہی میں مولوی فاضل کا کورس پڑھایا جاتا تھا اور مرزا بشیر الدین محمود کے ماموں میر محمد قادیانی اس کلاس کے نگران تھے۔ قادیان پہنچنے پر قادیانیوں کے روایتی رویے کے مطابق مولانا چیمہ صاحب کو قادیان کے تمام شعبہ جات سے متعارف کرایا گیا اور قبولِ مرزائیت کی ترغیب دی گئی اور قادیانیت کے بارے میں آزادانہ رائے کے اظہار پر مجبور کیا گیا۔ مولانا مرحوم نے فرمایا کہ میں صرف مولوی فاضل کے امتحان کے لیے آیا ہوں، آپ یہ بتلائیں کہ مجھے اس کی تیاری کے لیے کلاس میں داخلہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ مگر انھوں نے قادیانیت کے بارے میں اظہارِ رائے پر اصرار کیا تو انھوں نے فرمایا: یہاں آنے سے پہلے تو مجھے تمھاری فریب کاریوں کے بارے میں شبہ تھا، مگر یہاں آکر اس کا بھی ازالہ ہو گیا ہے اور تمھارے اس سلسلے کو کفر و ضلالت کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتا۔ بس اسی بنا پر مولوی فاضل کی کلاس میں داخلہ نہ مل سکا۔ قادیان سے واپس آکر ۱۹۴۳ء میں پرائیویٹ طور پر مولوی فاضل کا امتحان اول نمبروں میں پاس کیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ گھر پر رہے، پھر مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ تشریف لے گئے۔
Flag Counter