Maktaba Wahhabi

76 - 462
ایک باعتبار فضل و مرتبت کے۔ مشہور ہے: ’’المعاصرۃ أصل المنافرۃ‘‘ اکثر بڑے بڑے محدثین بھی اس بشری کمزوری سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ بنابریں محدثین کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ معاصر کی بلا سبب جرح قبول نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے احمد بن صالح رحمہ اللہ ، ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کے شعبی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے ابن اسحاق رحمہ اللہ کے متعلق جو اقوال جرح و تعدیل کی کتابوں میں منقول ہیں وہ دراصل اسی قبیل سے ہیں، جن کی طرف محققین نے التفات تک نہیں کیا۔ تاہم امام دارقطنی رحمہ اللہ کا دامن اس قسم کی آلودگیوں سے بالکل مبرا تھا۔ اپنے زمانہ کے اصحابِ فضل ہی نہیں، بلکہ اپنے تلامذہ کی تعریف و توصیف میں بھی وہ رطب اللسان نظر آتے ہیں، چنانچہ جب مصر سے واپس آئے تو ’’البرقانی‘‘ نے دریافت کیا آپ نے کسی کو ایسا پایا جو علم و فہم کا مالک ہو تو اس کے جواب میں فرمایا: ہاں ایک نوجوان عبدالغنی جو آگ کا شعلہ تھے۔ پھر ان کے بارے میں بڑے توصیفی کلمات کہے۔ منصور بن علی الطرسوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب امام دارقطنی رحمہ اللہ نے مصر سے چلے جانے کا ارادہ کیا تو ہم انھیں الوداع کہنے آئے۔ ہم سے رہا نہ گیا تو ان کی جدائی میں رونا شروع کر دیا۔ فرمانے لگے: روتے کیوں ہوں عبدالغنی جو تمھارے پاس ہے۔[1] عبداللہ بن ابراہیم الاصیلی رحمہ اللہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے اس شان کا آدمی میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ الغرض اس قسم کے اور بھی واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ میں معاصرت کی بنا پر منافرت جو ایک بشری کمزوری اور قدرتی امر ہے، سے مبرا تھے۔ بلکہ وہ ہر صاحبِ فضل کا اعتراف کرتے اور اس سے استفادہ کرتے۔
Flag Counter