Maktaba Wahhabi

83 - 462
جاہل جیسے قبیح الفاظ سے یاد کرتے ہیں [1] اور کہیں یہ کہا ہے کہ حاکم کو ان جیسی احادیث کو صحیح کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے حیا نہیں آتی۔[2] یہی نہیں بلکہ وہ چونکہ شیعیت سے متاثر تھے، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ایسی روایات نقل کی ہیں، جنھیں محدثین نے موضوع کہا ہے۔ اسی بنا پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ولیتہ لم یصنف المستدرک فإنہ غض من فضائلہ بسوء تصرفہ‘‘[3] ابن عراق رحمہ اللہ نے تنزیہ الشریعۃ کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے المستدرک کی موضوع روایات کو جمع کیا ہے جو ایک سو سے متجاوز ہیں۔ لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کے متعلق ’’الزنجانی رحمہ اللہ ‘‘ کا یہ تجزیہ کچھ محلِ نظر ہے۔ اس کے علاوہ امام دارقطنی رحمہ اللہ بعض فنونِ حدیث کے مبتکر ہیں، جن کا متقدمین کے کلام میں تذکرہ تک نہیں ملتا اور ان میں سب سے پہلے مصنف و مؤلف ہونے کا شرف بھی انہی کو حاصل ہے۔ جس کا ذکر آیندہ اوراق میں آرہا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ محدثین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ثم سبعۃ من الحفاظ في ساقتھم أحسنوا التصنیف وعظم النفع بتصانیفھم أبو الحسن الدارقطني ثم الحاکم أبو عبد اللّٰه النیسابوري ثم أبو محمد عبد الغني بن سعید إلخ‘‘[4]
Flag Counter