Maktaba Wahhabi

96 - 462
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس اسلوب سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر ضعیف روایتیں جمع کیں، جن سے ان کا مقصد محض اپنے فقہی مسلک کو موید کرنا تھا اور بس۔ لیکن اس مفروضے کی تردید حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول سے ہو جاتی ہے، جو انھوں نے ایک فتویٰ میں نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’أو یرویھا من جمع ھذا الباب کالدارقطني والخطیب وغیرھما فإنھم جمعوا ما رویٰ‘‘ یعنی جہر بسم اللہ کی احادیث کا احاطہ دارقطنی اور خطیب نے کیا ہے، جنھوں نے اس باب میں تمام روایات کو جمع کر دیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اس باب کی روایتوں کو جمع کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا اور اس کی وہی حیثیت ہے جو امام نسائی کے رسالہ ’’مناقب علی رضی اللہ عنہ ‘‘ کی ہے۔ جس میں انھوں نے حسن، ضعیف بلکہ منکر و موضوع روایات کو بھی جمع کر دیا ہے، جس کی بنا پر بعض تذکرہ نویسوں نے انھیں شیعیت سے بھی متہم کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک فقہی مسئلہ پر سب روایتوں کو ایک کتابچہ کی شکل میں جمع کر دینے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس محدث کا بھی یہی مسلک ہے، جیسا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی مثال امام نسائی رحمہ اللہ کی کتاب ’’المناسک‘‘ کی ہے، جس میں انھوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کے ادلہ کو جمع کیا ہے۔ لیکن علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس کے باوجود فیض الباری میں انھیں حنبلی بتلایا ہے۔ لہٰذا جب وہ کتاب ’’المناسک‘‘ لکھنے کے باوجود حنبلی تھے تو امام دارقطنی رحمہ اللہ کتاب ’’الجھر ببسم اللہ‘‘ سے شافعی کیونکر قرار پائے؟ خصوصاً جب کہ انھوں نے اس قسم کی جملہ روایات کے ضعیف ہونے کی
Flag Counter