Maktaba Wahhabi

141 - 306
کہیں اور رہتا ہو۔اگر کسی وقت وہ حالات سے تنگ ہو کہ یہ نفقہ (خرچ) نہ دے سکے تو اس کے ذمہ یہ قرض رہے گا۔‘‘ حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے غلام نے ان سے کہا: میں یہ پورا مہینہ بیت المقدس میں گزارنا چاہتا ہوں، تو انھوں نے اسے حکم فرمایا’‘کیا تونے بیوی بچوں کو ایک مہینہ کا خرچ دے دیا ہے؟ عرض کیا نہیں، فرمایا واپس گھر جاؤ اورانہیں ایک مہینہ کا خرچ دے کر آؤ کیانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو ضائع کردے۔‘‘[1] اور فرمایا: ’’اللہ ہر نگران سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کریں گے کہ اس نے ان کی حفاظت کی یا ان کو ضائع کردیا حتی کہ آدمی سے اس کے گھر والوں کے متعلق پوچھیں گے۔‘‘[2] سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! اگر تم میں سے کوئی ایک صبح گھر سے نکلے اور سارا دن اپنی کمر پر لکڑیاں اکٹھی کر کے لائے اور بیچے جو اس کے لیے کافی ہوں اور وہ اسی سے صدقہ کردے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی کے پاس آئے اور اس سے بھیک مانگے، کوئی اسے دے دے اور کوئی دھتکاردے، اسی لیے دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔اور اسی پر خرچ کر جو تیرا قریبی ہو۔‘‘[3] اہل علم کا اجماع ہے کہ خاوند اپنی طاقت کے مطابق بیوی پر خرچ کرے، مگر یہ کہ بیوی س کی نا فرمانی کرے اور اس کی کوئی پروانہ کرے۔
Flag Counter