Maktaba Wahhabi

142 - 306
مذکورہ دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرنا ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ مگر آپ کی بیوی پر لازم ہے کہ وہ آپ کی مالی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے مال خرچ کرے اور اپنے ناجائز مطالبات سے دستبردار ہو جائے، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تاکہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کی روزی تنگ ہو وہ اس کے مطابق خرچ کرے، اللہ کسی کو اس کی وسعت سے بڑھ کر ذمہ دار نہیں بناتا۔ عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔‘‘[1] آپ کی بیوی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کثرت مطالبات کے ذریعے آپ کو پریشان کرے کیونکہ یہ نیک اور باوفا بیوی کی علامت نہیں ہے عقلمند باوفا بیوی اپنے خاوند کو کبھی بھی ضائع نہیں کرتی۔ آپ کے سوال سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنی بیوی کی جائز خواہشات پوری کرتے ہیں۔ اس لیے اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے آپ کی زندگی اجیرن بن جائے۔ آج کل فیشن پرستی، سہولیات زندگی اور ترقی کے نام پر بہت سی چیزیں خریدنا اور گھروں میں سجا کر رکھنا ضروری سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ وہ ضروریات زندگی میں داخل نہیں ہیں۔ آپ کی بیوی کو قناعت پسندی سے کام لینا چاہیے، اسے سوچنا چاہیے کہ جب اس کی جائز خواہشات کو پورا کیا جا رہا ہے تو وہ پھر ایسا رویہ کیوں رکھتی ہے؟ ہم آپ سے بھی کہنا چاہیں گے اکثر پریشانیاں اچھی بات اور بہترین اخلاق سے حل کی جا سکتی ہیں۔ آپ اسے اچھے طریقے سے سمجھائیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے کا حکم دیا اور اسی مقام پر یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اگر کسی کے پاس مال نہ ہو تو اچھی بات کرنے کا حکم دیا: ’’اور اگر تو ان سے اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں منہ پھیرلے جس کی تو امید کرتا ہے تو ان کے لیے اچھی بات کر۔‘‘[2] امام ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ جب تیرا کوئی قریبی تجھ سے سوال کرے اور تیرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ ہو اور تو اس سے منہ پھیرلے تو ان
Flag Counter