Maktaba Wahhabi

170 - 306
اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’اور اس وقت کو یاد کرو جب تم تھوڑے تھے،پس اس نے تمھیں زیادہ کیا۔‘‘[1] کوئی ذی شعور شخص اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ کثرتِ تعداد طاقت اورعزت کا سبب ہے۔رہی یہ بات جو منصوبہ بندی والے شیطانی فلسفہ اور مغربی تقلید کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ کثرتِ آبادی بھوک اورافلاس کاسبب ہے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھنا چاہیے: ’’اور نہیں ہے زمین میں کوئی جاندار مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘[2] دنیا میں کوئی انسان کسی کا رازق نہیں،یہ ذمہ داری تو مالک کائنات نے اپنے اوپر واجب کررکھی ہے۔مادرِ شکم میں اللہ تعالیٰ بچے کا رزق مقرر کردیتے ہیں۔پھر اس کی پیدائش پر وسائل کی کمی کاشیطانی راگ الاپنے والے یا تو جائل ہیں یا اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے باؤلے ہورہے ہیں،البتہ شریعت اسلامیہ فطرت کے مطابق ہونے کے لحاظ سے بچہ کی پیدائش میں وقفہ کے لیے مندرجہ ذیل شروط کو مدنظر رکھنے کا حکم دیتی ہے: ٭ یہ وقفہ کسی شرعی مجبوری کی بناء پر ہو،مثلاً عورت اس قدر بیمار ہو کہ حمل کی مشقت برداشت نہ کرسکے۔ ٭ عورت کا جسم اس قدر نحیف اور کمزور ہو کہ پہلے بچہ کا حمل اورپیدائش باعث اذیت ہو اور ایک دوسال کاوقفہ ضروری ہو کہ نئے بچے کی پیدائش برداشت کرسکتی ہو۔ ٭ خاوند کی اجازت حاصل ہو۔ ٭ کوئی مستند ڈاکٹر جیسا کہ وغیرہ گواہی دے کہ عورت حمل اور پیدائش کی متحمل نہیں ہے اور یہ مانع حمل دوائی عورت کے لیے نقصان دہ نہیں اور نہ ہی یہ دوائی حمل کی صلاحیت کو ختم کرنے والی ہے اور یہ دوائی بھی ڈاکٹر کے مشورے اور اس کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق استعمال کی جائے۔ سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں نسل کشی حرام ہے،نسل کا بڑھنا،کم
Flag Counter