Maktaba Wahhabi

182 - 306
یہاں اللہ نے عورت کی رضا مندی کی شرائط لگائی ہے کہ اگر بیوی اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ یہ مال اپنے خاوند کو دے ددے تو اس کو استعمال میں لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بیوی کی مرضی کے بعد اولاد سے اجازت لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اگر بیوی باشعور ہے تو اس کی اجازت اس کی رضا مندی اور خوشی تصور ہوگی ورنہ نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر بیوی مہر کا مال اپنی خوشی سے اپنے خاوند کودے دیتی ہے تو پھر خاوند پر احسان نہ جتلائے اور بار بار اس کا ذکر کر کے اس کو پریشان نہ کرے، اور اگر نہیں دیتی تو پھر خاوند کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اس کے ساتھ برا سلوک کرے یا اس کو بہانہ بنا کر وہ اس پر سختی کرے پیسے نہ دینے کا طعنہ دے کر اس کی دل آزاری کرےکیونکہ مہر بیوی کا حق ہے اور اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا مال اپنے مال رکھے یا اپنے خاوند کو ہبہ کردے نوٹ٭:میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ میں ایک دلچسپ واقعہ محترم قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو اسی موضوع سے متعلق ہے۔ 2003ء؁ میں جب ہم اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ میں القضاء الاسلامی(Islamic Law) کے طالب علم تھے۔عملی تطبیق (پریکٹس) دیکھنے کے لیے مدینہ منورہ ہائی کورٹ جانے کا موقع میسر آتا۔ہائی کورٹ کا ماحول انتہائی سادہ اور بے تکلف تھا۔ایک دفعہ محکمۃ الزواج(فیملی کورٹ) میں فاضل جج فضیلۃ الشیخ حسین آل شیخ حفظہ اللہ جو کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے امام وخطیب بھی ہیں،کی عدالت میں ایک سعودی لڑکی نے تنسیخ نکاح کادعویٰ دائر کردیا۔پیشی کے دن طلباء کو بھی بلایا گیا اورعدالتی کاروائی دیکھنے کے لیے انہیں نمایاں مقام پر بٹھایا گیا۔سعودی لڑکی نقاب اور عبایا میں مکمل پردہ کیے ہوئے تھی۔شیخ صاحب نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے خاوند کی زوجیت سے کیوں علیحدہ ہونا چاہتی ہیں؟اس نے جواب دیا کہ میرا خاوند مجھ پر خرچ کرنے کی بجائے میری تنخواہ سے ہر ماہ اچھی خاصی رقم قبضہ میں لے لیتا ہے۔ شیخ صاحب نے پوچھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی مشکل تم دونوں کے درمیان ہے؟وہ کہنے لگی نہیں۔انہوں نے نوجوان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ اپنی بیوی پر خرچ کیوں نہیں کرتے اور اس کی آمدنی کیوں قبضہ میں لے لیتے ہیں جبکہ وہ راضی نہیں ہے؟اس نے جواب دیا
Flag Counter