Maktaba Wahhabi

183 - 306
کہ میرا کاروبار منداپڑگیاہے،چند دوستوں کاقرض دار ہوں، کسی سے مزید قرض لینے کی بجائے اپنی بیوی کی تنخواہ سے کچھ لے رہا ہوں اور اس کا باقاعدہ حساب رکھ رہاہوں اور یہ پیسہ گھریلو ضروریات پر خرچ کررہا ہوں۔اگر میری بیوی سمجھتی ہے کہ میں جن ضروریات پر خرچ کررہا ہوں ان سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو میں حالات بہترہوتے ہی ایک ایک پائی واپس کردوں گا۔ شیخ صاحب نے لڑکی سے پوچھا کہ جب آپ کا خاوند آپ کا پیسہ واپس کرنے کی نیت رکھتا ہے اور ویسے بھی وہ اپنی ذات پر خرچ نہیں کر رہا تو آپ طلاق لینے پر کیوں اصرار کر رہی ہیں؟ لڑکی نے جواب دیا کہ میں بہرحال اس نکاح کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔ شیخ صاحب نے دونوں کو حکم دیا کہ فیملی کورٹ میں بنائے گئے خاص کمرہ میں جائیں، نصف گھنٹہ تک آپس میں صلاح مشورہ کریں اور سوچیں کہ اسلام گھروں کو ٹوٹتے ہوئے نہیں بلکہ بنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوفا اور صوم و صلوٰۃ کی پابند بیوی کو خاوند کی اطاعت اور اس کے ساتھ تعاون پر جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔ وہ دونوں اس خاص کمرہ میں چلے گئے، نصف گھنٹہ کے بعد آئے تو لڑکی کے لب و لہجہ میں پہلے والی سختی نہ تھی اور صاف محسوس ہو رہا تھاکہ وہ سمجھانے بجھانے پر خاوند کے ساتھ رہنے پر تیار ہو جائے گی۔ شیخ صاحب نے لڑکی سے پوچھا بتاؤ تمھارا خیال کیا ہے؟ وہ کوئی زبان آورلڑکی نہ تھی، اس نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد دھیمے سے انداز میں کہا کہ میں طلاق چاہتی ہوں۔ عین اس وقت جب شیخ صاحب اس کے ساتھ مخاطب ہونے لگے۔ایک ادھیڑ عمر سعودی شخص نے کہا شیخ صاحب آپ طلاق جاری کرنے کا حکم صادر کریں، ہم طلاق ہی چاہتے ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا تو کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں لڑکی کا باپ ہوں۔ شیخ صاحب کہنے لگے کہ آپ خاموش رہیں، آپ کو اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میاں بیوی کے درمیان دوری کا باعث بنیں۔ شیخ صاحب نے کہا میں تمھیں دس دن کا وقت دیتا ہوں خوب سوچ لو اور دس دن کے بعد اپنے فیصلہ سے آگاہ کرو لیکن ان دس دنوں میں تجھے اپنے خاوند کے گھر میں رہنا ہوگا۔ دس دن کے بعد عدالت کی کاروائی شروع ہوئی، لڑکی نے طلاق کا مطالبہ کیا،لڑکی کے
Flag Counter