Maktaba Wahhabi

184 - 306
باپ نے بھی طلاق پر زور دیا۔ شیخ صاحب نے عدالت کے داروغہ کو مخاطب کر کے کہا کہ لڑکی کے باپ کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دو، یہی مجھے طلاق کا محرک لگتا ہے۔ پھر شیخ صاحب نے مختصر انداز میں اسلامی خاندانی نظام کو خوبیاں، بیوی کی اطاعت اور وفا شعاری کے دلائل لڑکی کو سمجھائے۔ پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ذکر کیا کہ جب ان کی شادی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو وہ انتہائی مالدار خاتون تھیں اور انھوں نے اپنا مال رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں جس طرح چاہیں تصرف کریں،یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ شیخ صاحب !ایک ہمدر باپ کی طرح لڑکی کو بیٹی بیٹی کہہ کر سمجھائے جارہے تھے اور لڑکی کا بھیگا ہوا نقاب اس بات کا غماز تھا کہ اس کا احمقانہ پن آنسوؤں کے راستے سیاہ عربی عباء میں جذب ہو چکا ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، شیخ صاحب نے دونوں کو خاص کمرہ میں جانے اور مشورہ کرنے کا مزید وقت دے دیا۔ جب وہ دونوں باہر آئے تو نوجوان کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہوا تھا اور لڑکی کی نظریں احساس ندامت سے زمین پہ گر چکی تھیں اور اس کا غصہ کا فورہو چکا تھا۔ لڑکی نے اعتراف کیا کہ اس کا والد طلاق پر مجبور کر رہاتھا تاکہ حق مہر کا وارث بنے کیونکہ سعودی عرب میں مہر قابل ذکر ہوتا ہے۔ اب نفرت محبت میں بدل چکی تھی، لڑکی کہنے لگی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ جیسے شفیق اور ہمدرد جج ہم لوگوں کو نصیب فرمائے ہیں اور اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے اپنے خاوند سے حساب و کتاب لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ لڑکے نے شیخ صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کی عمر دراز فرمائے کہ آپ نے انتہائی شفقت کا معاملہ کرتے ہوئے ہمارا گھر ٹوٹنےسے بچا لیا شیخ صاحب نے عاجزی سے کہا کہ یہ تو اسلام کے سنہری اصول ہیں جو میں نے آپ کو یاد کروائے ہیں، یہ اس ذات الٰہی کی مہربانی ہے جس نے نفرت کو محبت میں اور دشمنی کو دوستی میں بدل ڈالا ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اگر ہمارے ملک کی عدالت ہوتی تو ایسا تماشہ ہوتا کہ دیکھنے والےبھی انگشت بدنداں رہ جاتے۔ یہاں نفرت کو ہی پروان چڑھایا جاتا، غلط فہمیاں ہی پیدا کی جاتیں، تاریخوں پہ تاریخیں ڈال کر اپنی جیبیں بھری جاتیں اور آخرکار تحفظ حقوق نسواں کا پر
Flag Counter