Maktaba Wahhabi

244 - 306
ایک موقع پر اور ایک ہی وقت میں دو آزمائشوں میں گرفتار ہوتے ہیں، اللہ نے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ) [1] ’’اے ایمان والو! تمھارے غلام، لونڈیاں اور نابالغ لڑکے لڑکیاں تین وقتوں میں تمھارے پاس آنے کی اجازت طلب کیا کریں۔ ایک فجر کی نمازسے پہلے، دوسرے دوپہرکے وقت جب تم آرام کرنے کے لیے کپڑے اتار رکھتے ہو اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد،تین تمھاری خلوت اورپردہ کے ہیں۔‘‘ اس آیت میں(ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) کا معنی تین مختلف اوقات ہی ہیں، جیسا کہ آگے بیان کر دیا گیا ہے۔ ایسے ہی(الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ)کا یہ معنی نہیں کہ ایک ہی وقت میں اکٹھی دو طلاقیں ہیں، بلکہ دوالگ الگ موقعوں میں طلاق دینا ہے اور ہر موقع میں مرد کو رجوع کا حق بھی ہے اور چھوڑنے کا اختیار بھی۔علامہ سندھی فرماتے ہیں: (فإن معناه التطليق الشرعي تطليقة بعد تطليقة على التفريق دون الجمع والإرسال مرة واحدة ولم يرد بالمرتين التثنية ومثله قوله تعالى : (ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ )أي كرة بعد كرة لا كرتين اثنتين) [2] ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ شرعی طلاق وہ ہوتی ہے جو وقفہ بعد وقفہ دی جائے، اکٹھی اور یکبارگی نہ دی جائے اور آیت میں(مَرَّتَانِ) سے مراد دوطلاقیں نہیں، اس کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے۔ ’’ پھر نگاہ کو بار بارپلٹا۔‘‘یہاں (كَرَّتَيْنِ) سے مراد دوبار نگاہ کو لوٹانا نہیں ہے بلکہ باربار ہے۔‘‘ ان دو موقعوں کے بعد تیسری بار اگر طلاق دے دی تو یہ عورت اس مرد پر قطعی حرام ہوجائے گی۔جو لوگ اکٹھی تین طلاقیں نافذ کر دیتے ہیں، وہ مرد کا حق ضبط کر دیتے ہیں، حالانکہ
Flag Counter