Maktaba Wahhabi

245 - 306
یہ حق اسے اللہ نے دیا ہے اور اللہ کا دیا ہوا حق ضبط کرنا ناانصافی اور ظلم ہے۔ اسی لیے اللہ نے دو مرتبہ کی طلاق ذکر کرنے کے بعد آیت کے آخر میں فرمایا: (تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فأولئك هُمُ الظَّالِمُونَ) [1] ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں، انہیں مت پھلانگو اور جو اللہ کی حدوں کو پھلانگتے ہیں وہ ظالم ہیں۔‘‘ معلوم ہوا کہ قانون خداوندی سے ہٹ کر طلاقیں دینا ظلم و ناانصافی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنا ہے اور اکٹھی تین طلاقیں دینا بھی شریعت کے ساتھ مذاق اور حدود سے تجاوز ہے۔محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی زوجہ کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا: (أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللّٰهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ ) [2] ’’کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔‘‘ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک وقت میں اکٹھی تین طلاقیں دینا اللہ کے قانون کے ساتھ مذاق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی طلاق پر غضب ناک ہوئے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح عام قاعدہ کے تحت نذر کا پورا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر کوئی شخص خلاف شرع کام کی نذر مانے تو اس نذر کو پورا نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ایک وقت کی تین طلاقیں خلاف شرع ہونے کے باعث باطل ہوں گی، اگر کسی سے یہ ظلم ہو گیا تو اس کو جاری و ساری رکھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی، مگرپھر اس پر بڑے مغموم و محزون اور رنجور و غمزدہ ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
Flag Counter