Maktaba Wahhabi

290 - 306
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’یہ حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ہے، اس نے جو اللہ نے چاہا ذکر کردیاہے۔ ‘‘وہ کہنے لگیں’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جو کچھ اس نے مجھے دیا ہے وہ سارا میرے پاس ہے۔ ‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ثابت !اس سے یہ مال لے لو(اور طلاق دےدو)۔ ‘‘ تو حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے اس سے مال لے لیا اور وہ اپنے گھر میں بیٹھ رہی۔‘‘[1] سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ (أنَّ امرأةَ ثابتِ بنِ قيسٍ أتتِ النَّبيَّ صلَّى اللّٰهُ عليهِ وسلَّمَ، فقالَت : يا رسولَ اللّٰهِ ! ثابتُ بنُ قيسٍ، أما إنِّي ما أعيبُ عليهِ في خُلُقٍ ولا دينٍ، ولَكِنِّي أكْرَهُ الكُفرَ في الإسلامِ، فقالَ رسولُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليهِ وسلَّمَ : أتردِّينَ عليهِ حديقتَهُ ؟ قالَت : نعَم قالَ رسولُ اللّٰهِ : اقبَلِ الحديقةَ وطلِّقها تَطليقةً) [2] ’’حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پر اس کے اخلاق اور دین میں کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن میں اسلام میں کفر(ناشکری وغیرہ) کو ناپسند کرتی ہوں۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’کیا تم ثابت رضی اللہ عنہ کو اس کا باغ واپس کرتی ہو؟‘‘ اس نے کہاہاں! ’’تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’باغ قبول کر لےاور اسےطلاق دے دے۔‘‘ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کے پاس نہ رہنا چاہے اور اس کی معقول وجہ ہو تو اسے خلع کا حق حاصل ہے۔ لہٰذا سائلہ اگر معقول شرعی عذر کی بنا پر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تو اسے حق خلع حاصل ہے،وہ ثالثی عدالت،پنچائت یا قانونی چارہ جوئی کے ذریعے خلع حاصل کر سکتی ہے۔(ابو الحسن مبشر احمد ربانی)
Flag Counter