Maktaba Wahhabi

292 - 306
تیسری طلاق دے دے تو اس کے بعد عورت اس کے لیے حلال نہیں، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ طلاق والی آیت کریمہ کے شروع میں اللہ نے دو طلاقوں کا ذکر کیا ہے، پھر آگے تیسری طلاق کا ذکرہے اور خلع ان کے درمیان میں بیان کیا ہے، اگر خلع کو طلاق شمار کیا جائے تو تین کی بجائے چار طلاقیں بن جاتی ہیں، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ خلع طلاق نہیں، بلکہ فسخ نکاح ہے اور اگر کوئی آدمی اپنی منکوحہ کو دو طلاقیں دے چکا ہے، پھر اس کے بعد عورت خلع کی ڈگری حاصل کر لیتی ہے تو اس کے بعد ان کا نکاح آپس میں ہو سکتا ہے، کیونکہ خلع کو تیسری طلاق شمار نہیں کیا جائے گا، اسے فسخ نکاح قراردیا جائے گا۔ امام ابن کثیر اس کے بعد فرماتے ہیں: (هذالذي ذهب اليه ابن عباس رضي اللّٰه عنه ان الخلع ليس بطلاق وانما هو فسخ هورواية عن امير المومنين عثمان بن عفان رضي اللّٰه عنه وابن عمر رضي اللّٰه عنه وهو قول طاؤس وعكرمة وبه يقول احمد بن حنبل واسحاق بن راهويه وابوثور وداؤد بن علي الظاهري وهو مذهب الشافعي في القديم وهو ظاهر الآية الكريمة ) [1] ’’یہ وہ بات ہے جس کی طرف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ گئے ہیں کہ خلع طلاق نہیں، فسخ نکاح ہے اور یہی روایت امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے۔ امام طاؤس اور عکرمہ کا بھی یہی قول ہے اور یہی بات امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابو ثور اور امام داؤد ظاہری کہتے ہیں۔ امام شافعی کا قدیم مذہب یہی ہے اور یہی بات آیت کریمہ سے ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ بعض آئمہ کے نزدیک خلع طلاق بائن ہے لیکن اس کی کوئی پختہ دلیل نہیں ہے۔ قرآنی آیت کے ظاہر سے یہی معنی متباور ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خلع والی عورت کی عدت ایک
Flag Counter