Maktaba Wahhabi

293 - 306
حیض ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے: أن امرأة ثابت بن قيس اختلعت منه فجعل النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم - عدّتها حيضة [1] ’’بلا شبہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض قراردی ہے۔‘‘ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وهذا أدل شيء على أن الخلع فسخ وليس بطلاق، لأن اللّٰه تعالى قال (وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) فلو كانت هذه مطلقة لم يقتصر لها على قراء واحد [2] ’’یہ سب سے بڑی دلیل ہے اس پر کہ خلع فسخ نکاح ہے، طلاق نہیں، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا:’‘ طلاق یا فتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ ’’اگر خلع لینے والی عورت مطلقہ شمار ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے عدت ایک حیض مقرر نہ کرتے ‘‘ مذکورہ روایت کو بعض راویوں نے مرسل بھی بیان کیا ہے لیکن جب کوئی روایت ایک طریق سے مرسل اور دوسرے طریق سے موصول مروی ہوتو روایت موصول ہی سمجھی جاتی ہے اور یہ کوئی علت قادحہ نہیں ہوتی، جیسا کہ اصول حدیث کی کتب میں واضح ہے۔ امام ترمذی اس مسئلہ میں اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اختلاف نقل کرنے کے ساتھ امام اسحاق بن راہویہ کے قول کہ ’’خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے‘‘کے بارے لکھتے ہیں: (وإن ذهب ذاهب إلى هذا فهو مذهب قوي) [3] ’’اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو یہ مذہب قوی ہے۔‘‘
Flag Counter