Maktaba Wahhabi

45 - 306
بغیر کسی شرعی مجبوری کے اپنی بچیوں کی شادیاں لیٹ نہ کریں۔ ویسے بھی پڑھائی کی تکمیل میں شادی رکاوٹ تو نہیں ہے۔ آپ اپنے داماد سے یہ شرط طے کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کی بچی کو پڑھائی مکمل کرنے کی اجازت دے گا اور اس سلسلے میں اس کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ میرے خیال کے مطابق اگر عورت کسی ایسے علم میں مشغول ہے جو اس کی ضرورت ہے جیسا کہ طب وغیرہ، تو عورت تکمیل تعلیم کی شرط لگا کر نکاح کر سکتی ہے۔ ورنہ عام طور پر جب بچی ابتدائی تعلیم حاصل کر لے، اسے لکھنا اور تلاوت و تفسیر وغیرہ سے واقفیت ہو جائے تو اس کے لیے یہی کافی ہے، کیونکہ بچوں کی پیدائش کے بعد اس کے لیے دیگر مصروفیات کے لیے وقت نکالنا آسان نہیں رہتا۔ میرا خیال تو یہی ہے کہ عام عورت لکھنے پڑھنے، تلاوت، تفسیر اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف ہو جائے تو یہی بہت ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا علم حاصل کر رہی ہو جو عورتوں کے لیے ضروری ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ طب وغیرہ تو وہ اپنی تعلیم مکمل کرے مگر شادی اس میں قطعاً رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ تعلیم بھی اس شرط کے ساتھ مکمل کرنے کی اجازت ہے کہ عورتوں کی تعلیم کا اہتمام الگ ہوا اور مردوں سے اختلاط کا خطرہ نہ ہو۔(ابن العثیمین) نوٹ: میں مترجم عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں تکمیل تعلیم، مالی حالات کی بہتری اور دیگر کئی وجوہات کو بنیاد بنا کر شادیوں میں خوا مخواہ تاخیر کی جاتی ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت رکھنے والوں کو فوراً شادی کا حکم دیا ہے۔ دینی تعلیمات سے دوری اور شرعی اصولوں سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے کہ ہم حقائق کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں 36،35سال کی عمر سے پہلے شادی کرنا عیب تصور کیا جاتا ہے،اس کا کہنا ہے کہ جب میری عمر 32سال تھی تو والد گرامی کو ان کے کسی دوست نے کہا کہ آپ اپنے بچے کی شادی کردیں،تو انھوں نے بغیر سوچے سمجھے جواب دیا کہ ’’ایہدی کہڑی اجے شادی دی عمر ہوئی اے‘‘واقعتاًبعض خاندانوں میں بچے اور بچیوں کی اس وقت شادی کی جاتی ہے جب ان کی عمر عزیز ڈھل چکی ہوتی ہےاور جوانی کے ایام گزر چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرتی روئیے بھی انتہائی عجیب ہیں۔ اگر کوئی آدمی جوانی کے ابتدائی ایام میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کے لیے شادی کے بندھن میں بندھ جاتا ہے تو سب لوگ
Flag Counter