Maktaba Wahhabi

58 - 306
کیونکہ یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔[1] جب معاشرتی طور پر نکاح شغار کو دیکھاجاتا ہے کہ مہر ہونے یانہ ہونے سے اس کی قباحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو دونوں گھر اجڑتے ہیں حالانکہ قصور ایک کا ہوتا ہے اور دوسرا بلاوجہ زیادتی کے لیے تختہء مشق بن جاتا ہے۔لہذا اس قسم کے نکاح سے اجتناب کرنا چاہیے۔اگرچہ احناف کا مؤقف ہے کہ اگر اس قسم کا نکاح ہوجائے تو درمیان میں حق مہر رکھنے کے بعد اسے سندِ جواز مہیا کی جاسکتی ہے لیکن اس قسم کا حیلہ گری کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے وٹہ سٹہ کا نکاح سرے سے منعقد یہ نہیں ہوتا۔(واللہ اعلم بالصواب) (ابومحمد حافظ عبدالستار الحماد) نوٹ:میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ ہمارے ہا ں وٹہ سٹہ کے نکاح کا رواج عام ہے۔ یہ احکام شریعت کی واضح خلاف ورزی ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر مہر مقرر کیاجائے تو اسے وٹہ سٹہ نہیں کہتے،مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔وٹہ سٹہ ہر اُس شادی کو کہیں گے جس میں یہ شرط رکھ دی جائے کہ تم اپنی بیٹی کا بہن کا رشتہ ہمیں دوگے تو ہم اپنی بیٹی /بہن کا رشتہ تمہیں دیں گے،اگر تم نہیں دوگے تو ہم بھی نہیں دیں گے یا اس طرح آثار وقرائن میں موجود ہوں یہ نکاح شرعی لحاظ سے باطل ہے۔مہر مقرر کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض لوگ حیلوں بہانوں سے وٹہ سٹہ کے نکاح کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہ شرط کو خفیہ رکھ کر چند سال کے وقفہ سے نکاح کرتے ہیں۔ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ حیلوں بہانوں سے شرعی احکام قطعاً تبدیل نہیں ہوتے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں حیلوں بہانوں سے شرعی احکام کو توڑنے مروڑنے کو غلط اور باطل قراردیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ومعروف فرمان ہے کہ: (إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ) وٹہ سٹہ کی شادی میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ اس میں اکثر رشتے غیر مناسب ہوتے ہیں جن کا انجام خاندانی تنازعات کی شکل میں سامنے آتا ہے اور ایسی قباحتیں جنم لیتی ہیں کہ
Flag Counter