Maktaba Wahhabi

83 - 306
مانا،بلکہ گریہ و زاری ہی میں اس کا نکاح زید کے ساتھ کردیا اور ایسے الفاظ کہنے سے(گویا فریب دینے سے)کہ اگر تو وہاں راضی نہ ہوئی تو تمہیں ان سے واپس کر والوں گا،خسر کے گھر روانہ کردیا اور لڑکی وہاں سے واپس چلی آئی۔ اور اس کی طرف سے تاحال بالرضا اور بالا کراہ ایجاب شرعی ہو سکتا ہے یا نہیں؟بینوا توجروا۔ جواب۔صورت مسئولہ میں جب کہ عورت عاقلہ بالغہ مذکورہ اپنے شوہر کے معین ہونے کے وقت اور عین ایجاب کے وقت یہ کہہ رہی تھی، مگر اس کے باپ نے نہ اس کی مرضی پر توجہ کی اور نہ کسی غیر کا کہنا مانا اور بلا مرضی اس کے اس کا نکاح زید کے ساتھ کردیا اور تاحال وہ راضی نہیں ہے، تو یہ نکاح منعقد ہوا، کیونکہ عورت عاقلہ بالغہ کے نکاح کے منعقد ہونے کے لیے اس کی اجازت و مرضی شرط ہے۔ مشکوۃ شریف میں ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ ’’ الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا)[1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ اپنے ولی کی نسبت اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے اور کنواری سے اس کی ذات کے متعلق اجازت لی جائے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: ’’بیوہ اپنے ولی کی نسبت اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے اور کنواری سے اجازت لی جائے۔ ‘‘ ( عن ابن عباس، ’’ ان جارية بكرا اتت النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، فذكرت ان اباها زوجها وهي كارهة، فخيرها النبي صلى اللّٰه عليه وسلم)[2]
Flag Counter