Maktaba Wahhabi

96 - 306
جب اسے کوئی حکم دے تو وہ اطاعت کرے، جب اس کے پاس نہ ہو تو اپنی عزت کی حفاظت کرے۔‘‘[1] الغرض بہت ہی سادہ اور آسان سی شروط ہیں شریک حیات کے انتخاب کے لیے، مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس خود ساختہ معیار کے پیچھے دوڑتے ہیں جسے ہمارے لیے شیطان نے مزین کرکے پیش کیا ہے۔بے دین اور بداخلاق عورت کسی بھی لحاظ سے خاوند کے لیے فائدہ کا باعث نہیں بن سکتی چاہے کس قدر خوبصورت اور اپنے تئیں ترقی یافتہ ہونے کی دعویدارہو۔ ڈیسنٹ فیملی سے تعلق، دراز قد، خوبصورت، سمارٹ، بزنس مین کی بیٹی، گوری رنگت، امریکہ سیٹل، کوٹھی کی مالک وغیرہ یہ چھوٹے معیار ہیں جو اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ہم اس جھوٹے معیار اور پروپیگنڈہ سے اس قدر متاثر ہیں کہ کوئی دیندار، باوفا اور سلیقہ شعار لڑکی ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دراصل یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ آپ حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ان اخباری اشتہارات کو پڑھیں تو تعجب ہوتا ہے کہ تمام لڑکیاں ایم ایس سی، ایم اے،امریکہ، کینیڈا، برطانیہ سیٹل ہیں، لیکن رشتے پھر بھی نہیں مل رہے، آخر کیوں؟کہیں یہ دھوکہ تو نہیں ہے اور عوام الناس کو بے وقوف بنانے کا پروگرام تو نہیں؟ لڑکے کو بھی پاسپورٹ دینے اور بیرون ملک سیٹل کرنے کی آفر ہے مگر پاکستان میں شاید نوجوانوں کا قحط پڑ چکا ہے اور اللہ تعالیٰ معاف فرمائے یہ سوچ اس قدر غالب آچکی ہے کہ ہمارے بعض دیندار اور مذہبی لگاؤ رکھنے والے نوجوان بھی اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں کلاس میں نکاح کا موضوع زیر بحث تھا کہ استاد محترم نے بتایا کہ میرے ایک عالم دین دوست نے شریک حیات کے انتخاب کے لیے مندرجہ ذیل شروط ایک کاغذ پر باقاعدہ تحریر کر رکھی تھیں: رنگ گورا ہو، ہونٹ اورناک باریک ہوں، قد ساڑھے پانچ فٹ سے زیادہ ہو،سلم اور سمارٹ ہو،دنیا وی تعلیم ایم اے یا کم از کم بی اے ہو،دینی تعلیم حفظ، درس نظامی ہو، تمام تعلیمی
Flag Counter