Maktaba Wahhabi

153 - 462
اور بخاری و مسلم کا مرتبہ ان سے کہیں اونچا ہے، اگرچہ دونوں میں بھی تھوڑا سا اختلاف ہے۔‘‘ بایں ہمہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس نقد کا اثر صحیح بخاری پر یہ ہوا کہ وہ روایات مقطوع بالصحۃ نہ رہیں اور نہ ہی ان روایات سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ جب تلقی بالقبول پر اجماع نہ رہا تو وہ مقطوع بالصحۃ بھی نہ رہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری اور امام نووی رحمہ اللہ نے ’’تقریب‘‘ میں صراحت کی ہے۔ حضرت نواب صدیق حسن خان قنوجی فرماتے ہیں: ’’ابن الصلاح نے کہا ہے کہ بخاری و مسلم میں جس قدر مسند احادیث ہیں ان سے علم یقینی نظری حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ معصوم (اجماع) سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ ان سے پہلے محمد بن طاہر مقدسی رحمہ اللہ اور ابو نصر عبدالرحیم رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اہلِ حدیث اور بہت سے شوافع و حنابلہ اور احناف کا یہی مسلک نقل کیا ہے، لیکن نووی نے کہا ہے کہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے اس اصول سے محققین اور اکثر علما نے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر متواتر احادیث سے ظن ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ قول زین الدین کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن الصلاح نے ان احادیث کو مستثنیٰ قرار دیا ہے، جن پر بعض اہلِ نقد جیسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کلام کیا ہے۔[1] حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter