Maktaba Wahhabi

158 - 462
’’ھو ثمرۃ ھذا العلم والمرقاۃ الکبیرۃ منہ‘‘[1] بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو ابو شامہ رحمہ اللہ سے یہاں تک نقل کیا ہے کہ جو شخص جرح و تعدیل سے واقف نہیں وہ احادیث کا حافظ ہی کیوں نہ ہو اسے محدث نہیں کہا جائے گا۔[2] امام دارقطنی رحمہ اللہ کو اس فن سے گہرا لگاؤ تھا۔ میزان الاعتدال، لسان المیزان، تہذیب التہذیب اور رجال کی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ راویوں کی قلیل جماعت ہی ایسی ہو گی، جن پر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کلام نہ کیا ہو۔ ائمۂ فن نے ان کے کلام کو بلا تامل حجت قرار دیا ہے اور ان کی تصحیح و تضعیف پر اعتماد کیا ہے۔ ’’الرد علی البکری‘‘ کے حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت اس سے قبل گزر چکی ہے کہ جرح و تعدیل میں ان کے کلام کو وہی اہمیت حاصل ہے جو احکام و مسائل میں امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کی ہے۔ اسی طرح علامہ ابو الفضل زین الدین عراقی رحمہ اللہ شرح الفیۃ الحدیث میں صحیحین کی احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کی صحت کا معیار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فمن أین یعرف الصحیح الزائد علی ما فیھا فقال (خذہ إذا تنص صحتہ) أي حیث ینص علی صحتہ إمام معتمد کأبي داود والترمذي والنسائي والدارقطني والخطابي والبیھقي في مصنفاتھم المعتبرۃ‘‘[3]
Flag Counter