Maktaba Wahhabi

162 - 462
راوی ایک مجہول (العین) سے روایت کریں تو اس سے ’’اسم الجہالۃ‘‘ یعنی جہالتِ عین مرتفع ہو جاتی ہے۔‘‘ لیکن اس سے یہ کیوں کر ثابت ہوتا ہے کہ اس کا مجہول الحال ہونا بھی رفع ہو جائے گا۔ یہی نہیں، بلکہ ’’سنن الدارقطنی‘‘ اور فتح المغیث کی عبارت میں تفاوت ہے، سنن میں تو ’’أن یروي عنہ رجلان‘‘ کے الفاظ ہیں، لیکن فتح المغیث میں ’’من روی عنہ ثقتان‘‘ ہے۔ نیز سنن میں ’’ارتفع عنہ اسم الجھالۃ‘‘ ہی کے الفاظ ہیں، حالانکہ فتح المغیث میں ’’ارتفعت جھالتہ وتثبت عدالتہ‘‘ کے الفاظ ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’عدالت کے ثبوت‘‘ کا ذکر سنن کی عبارت میں کہیں نہیں، بلکہ اس میں صرف ’’اسمِ جہالت‘‘ کے اٹھ جانے ہی کا ذکر ہے اور یہی جمہور متاخرین کا مسلک ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر ائمۂ اصولِ حدیث نے ذکر کیا ہے، خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأقل ما ترتفع بہ الجھالۃ أن یروي عن الرجل اثنان فصاعدا من المشھورین……نا أبو زکریا یحيٰ بن محمد بن یحيٰ قال سمعت أبي یقول إذا روی عن المحدث رجلان ارتفع عنہ اسم الجھالۃ قلت إلا أنہ لا یثبت لہ حکم العدالۃ بروایتھما عنہ‘‘[1] مزید یہ کہ سنن دارقطنی اور کتبِ جرح و تعدیل کے مطالعے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، کیوں کہ متعدد رواۃ ایسے ہیں، جنھیں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے، حالانکہ ان سے روایت کرنے والے دو یا دو سے زائد راوی ہوتے ہیں، جس کی
Flag Counter