Maktaba Wahhabi

168 - 462
قرار دے دیا ہے۔ اسی طرح عبدالرحمن بن ابراہیم القاص کو پہلے (ص: ۲۴۳) پر ثقہ اور اسی صفحہ پر اسے ضعیف بھی کہا ہے اور (ص: ۱۳۴) پر ابن لہیعہ کو ضعیف کہنے کے باوجود اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔‘‘[1] لیکن اس قسم کا اعتراض دراصل اصولِ حدیث اور محدثین کی اصطلاحات سے اغماز کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ ہم یہاں پہلے چند اصولی امور ذکر کر کے پھر ان مقامات کی وضاحت کریں گے: 1. ایک راوی میں اس قسم کے مختلف اقوال مختلف حالات کے مطابق ہوتے ہیں، کبھی محدث مطلقاً کسی راوی کے متعلق حکم لگاتا ہے اور کبھی کسی سبب سے، مثلاً دوسرے راوی کے مقابلے میں دوسرا حکم لگاتا ہے۔ مولانا امیر علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إذا اختلف الأقوال عن إمام بعینہ في رجل بعینہ فربما یکون علی وفق السؤال وبالنسبۃ إلی رجل آخر کما في شرح السخاوي‘‘ (التذنیب) اسی طرح علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وعلی ھذا یحمل أکثر ما ورد من الاختلاف في کلام أئمۃ الجرح والتعدیل ممن وثق رجلاً في وقت وجرحہ في وقت‘‘[2] 2. اور کبھی ایک راوی کے متعلق ایک جگہ مطلقاً حکم لگاتے ہیں، دریں صورت وہ ثقہ ہوتا ہے، لیکن کسی دوسرے خاص راوی سے روایت کرنے میں وہ ضعیف ہوتا
Flag Counter