Maktaba Wahhabi

265 - 462
عہدِ طفولیت لہو و لعب میں گزرا۔ والدِ محترم کے ایک دوست کے ایما پر ابتدائی فارسی کی کتابیں والد ماجد ہی سے پڑھنا شروع کر دیں۔ علم کا شوق بڑھا تو تحصیلِ علم کے لیے اپنے ایک دوست مولوی مراد علی کے ساتھ صادق پور کا رخ کیا۔ وہاں مولانا شاہ محمد حسین رحمہ اللہ کے مدرسے میں پہنچے جو اس وقت صوبہ بہار کی مرکزی درس گاہ خیال کی جاتی تھی۔ بعد ازیں اپنے ساتھی مولوی مراد علی کے ہمراہ دہلی کا رخ کیا۔ ارادہ تھا کہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے درس سے براہِ راست اکتسابِ فیض کیا جائے۔ مگر یہ مسافر سفری صعوبتوں اور نامساعد حالات کے باعث اس وقت دہلی پہنچے، جب کہ شاہ صاحب اس سے قبل رحلت فرما چکے تھے اور ان کے بعد ان کے جانشین حضرت شاہ محمد اسحاق اپنی خاندانی مسند پر بیٹھے علم و عرفان کی بارش برسا رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر پہلے علومِ عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی اس سلسلے میں متداولات مولانا عبدالخالق (م ۱۲۶۱ھ) مولانا شیر محمد (م ۱۲۵۷ھ)، مولانا جلال الدین اور مولانا کرامت علی سے پڑھیں اور علمِ ہیئت و ہندسہ کی تکمیل مولانا محمد بخش المعروف بہ تربیت خاں سے کی، جو اس وقت کے مشہور مہندس تھے اور ادبیات کی تحصیل مولانا عبدالقادر رامپوری سے کی۔ علوم و فنون سے فارغ ہو چکے تو حضرت شاہ اسحاق دہلوی سے حدیث و تفسیر کی کتابیں پڑھیں اورآخری ایام تک ان کے ساتھ ہی وابستہ رہے اور جب ۱۲۵۸ھ میں انھوں نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو اسی سال ان سے اجازہ حاصل کیا۔ ان کے بعد ۱۲۷۰ھ تک تو جملہ علوم و فنون کی تدریس کرتے رہے۔ لیکن ۱۳۰۴ھ میں خالصتاً اپنے آپ کو تفسیر و حدیث کے لیے وقف کر دیا۔ حضرت شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کی جانشینی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو گا کہ ’’میاں صاحب‘‘ کا لقب جو خاندانِ ولی اللہ کے
Flag Counter