Maktaba Wahhabi

297 - 462
شخصیت پرستی کی بو آتی ہے۔ علم و فن کی اس قدر خدمت نہیں ہوتی، ہمارے اسلاف کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ علمی میدان میں اگر کسی بزرگ سے انسانی تقاضے کے مطابق فروگزاشتیں ہوئیں۔ تو اس کا اظہار برملا کر دیا جاتا، اسے توہین یا استخفاف پر محمول کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ ہمارے محدث ڈیانوی ہی کو لیجیے ’’باب الرجل یجدد الوضوء من غیر حدث‘‘ کے تحت امام ابو داود رحمہ اللہ کے قول: ’’ھذا حدیث مسدد ھو أتم‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’شاید امام صاحب کو محمد بن یحییٰ کی مفصل روایت جو ابن ماجہ میں مذکور ہے نہیں ملی، تبھی وہ مسدد کی روایت کو ’’اتم‘‘ فرماتے ہیں۔ حالانکہ ابن یحییٰ کی روایت مسدد کی روایت سے ’’اتم‘‘ ہے۔‘‘[1] اسی طرح فقہی مسائل میں بھی محدث موصوف نے ائمۂ مجتہدین رحمہم اللہ کے اقوال کو دلائل کی کسوٹی پر پرکھا ہے اور جسے اقرب الی الصواب پایا اسے قبول فرمایا اور مرجوح قول کو دلائل سے رد کیا ہے۔ مگر فکری جمود کے حامل اس حریت فکر کو قبول کرنے کے بجائے الٹا اسے ائمہ کی توہین قرار دیتے ہیں۔ عموماً حنفی مکتبِ فکر چونکہ صحیح حدیث کے موافق نہیں۔ اس لیے جابجا مولانا ڈیانوی نے اس کی کمزوریوں کو بیان کیا ہے، مگر اربابِ تقلید کو یہ بات راس نہ آئی تو کہہ دیا: ’’إلا أنہ في بعض المواضع منہ استخفہ الشیطان فاستطال اللسان علی إمام الائمۃ أبي حنیفۃ النعمان علیہ سجال الرحمۃ والغفران‘‘[2] دیانت داری کا تقاضا تھا کہ مولانا سہارنپوری ایسے مواقع کی نشاندہی فرماتے،
Flag Counter