Maktaba Wahhabi

370 - 462
اس دور میں اگر علم و عمل، فہم و فراست، شرافت و نجابت، صدق و صفا، زہد و تقویٰ، امانت و دیانت، ذہانت و فطانت، ذکاوت و عبقریت کا ایک آموختہ تیار کر کے اسے بشری جامہ پہنا کر نوعِ انسانی کے سامنے کھڑا کر دیا جائے تو اس مجسمہ کا نامِ نامی ہو گا: حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللّٰه علیہ رحمۃً ظاہرۃً وباطنۃً جو چودہ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ بمطابق ۴ جون ۱۹۸۵ء بروز منگل ہمیشہ کے لیے اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے اور اپنے پیچھے ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں سوگوار چھوڑ گئے۔ حضرت محترم کافی عرصہ بیمار رہے، اسی دوران گاہے گاہے عیادت کے لیے کئی بار حاضری کا موقع ملا۔ آخری مرتبہ شعبان کے آخری عشرہ میں جب مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوا تو حالت نہایت تشویشناک تھی۔ اب تو پہچان تھی، نہ قوتِ سماعت رہی تھی، حزین و غمگین واپس لوٹا۔ احباب، حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی صحت کے بارے میں سوال کرتے تو زبان پر بے ساختہ یہی آتا کہ اللہ تعالیٰ ہی خیر فرمائے، ورنہ حالت بڑی خراب اور پریشان کن ہے۔ بالآخر چار ماہ شدید علالت کے بعد ع جس کا دھڑکا تھا بالآخر وہ گھڑی بھی آگئی وہ خبر آئی کہ بزمِ زندگی تھرّا گئی روشنی جس کی حریمِ روح کو چمکا گئی ظلمتِ مرگ اس ستارے کو بھی آخر کھا گئی جس سے روشن اپنے سینے تھے منور تھے دماغ بجھ گیا وہ علم کا حکمت کا دانش کا چراغ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ راقم آثم کو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ سے باقاعدہ استفادہ ۱۹۶۸ء میں ملا۔
Flag Counter