Maktaba Wahhabi

371 - 462
لیاقت پور، جو کہ میرا آبائی قصبہ ہے، میں دیوبندی مکتبِ فکر کے مدرسہ قاسم العلوم سے جب ۱۹۶۳ء میں ابتدائی علوم و فنون سے فارغ ہوا تو وہاں پر میرے اساتذہ کا اصرار تھا کہ تکمیل کے لیے جامعہ رشیدیہ ساہیوال یا خیر المدارس ملتان میں داخلہ لیا جائے۔ مگر حضرت مولانا مفتی عبدالرحمان صاحب آف کہروڑ پکا کا مشورہ تھا کہ الجامعۃ السلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ حضرت مفتی صاحب اہلِ حدیث تھے، بلکہ صرف اسی بنا پر کہ وہاں ان دنوں الجامعہ میں ان کے رفیق حضرت مولانا شریف اللہ خاں صاحب رحمہ اللہ ،[1] جو معقولات کے مسلم استاد تھے درس دیتے تھے۔ جناب مفتی صاحب رحمہ اللہ ان کے بڑے مداح تھے۔ اسی بنا پر بڑے اصرار سے حضرت والد صاحب[2] رحمہ اللہ کو الجامعہ میں داخلہ کا مشورہ دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت والد مرحوم نے مفتی صاحب کے مشورے کو نہ صرف قبول کیا، بلکہ اس کی تحسین بھی کی کہ ایک تو وہاں پڑوس ہی میں ہمارے عزیز رشتہ دار ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ گو مولانا شریف اللہ صاحب سے شناسائی نہیں، البتہ وہاں مجھے ایک اور فرشتہ سیرت بزرگ کی زیارت کا موقع ملا ہے، جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔ لہٰذا ان کی صحبت میں رہنا فائدے سے کسی صورت خالی نہیں۔ اس لیے الجامعہ ہی میں داخل ہونا چاہیے۔ اس فیصلے کے بعد بندہ ۶۴ء میں الجامعۃ السلفیہ حاضر ہوا، مگر شومیِ قسمت کہ جن کی بدولت میرے لیے الجامعہ کا انتخاب کیا گیا تھا، وہ میری حاضری سے قبل ہی ۶۲ء
Flag Counter